جب ہم آٹھ سال قبل والد صاحب کی وفات پر پہنچے تو تعزیت والے کمرے میں ایک آدمی ہمیں گم سم بیٹھا نظر آیا۔ غور سے دیکھا تو وہ انکل حیات تھا جو ہمارے چچا کا سالا تھا۔ اب جب اس کی وفات کی خبر سنی تو اس کی یادوں کی ساری کھڑکیاں کھل گئیں۔

حیات ایک چھوٹے قد کا گھٹے جسم والا گاؤں میں رہ کر بھی شہری لگتا تھا۔ محنت مزدوری سے اپنی فیملی کا پیٹ پال رہا تھا کہ ایک دن وہ بھی بھٹو کے دور میں دبئی جانے والوں کے قافلے میں شامل ہو گیا۔ پھر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ شروع شروع میں وہ پاکستان کا چکر دو سال میں لگا لیا کرتا تھا اور انہی چکروں میں اس کے پانچ بچے ہو گئے۔ اس کی بیوی گھریلو خاتون تھی جو بچوں کی پرورش میں اس طرح مگن ہوئی کہ اسے اپنے آپ کا بھی ہوش نہ رہا۔

حیات نے دنوں میں زمین خرید کر گھر بنایا اور اپنے گھر کو دبئی کی ساری چیزوں سے بھر دیا۔ اس کا گاؤں میں پہلا گھر تھا جس کے گھر میں ٹی وی دیکھا جاتا تھا اور لوگ اس کی فریج سے برف کی ٹکڑیاں مانگنے آیا کرتے تھے۔ اس کے گھر سے دن رات ٹیپ ریکارڈر پر گانوں کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ وہ جب بھی دبئی سے آتا لدا پھندا آتا اور لوگ رشک سے اسے دیکھا کرتے۔

پھر حیات کے پاکستان کے چکروں میں وقفے بڑھنے لگے اور اس نے اپنے بچوں کو رقم بھھی کم ارسال کرنا شروع کردی۔ ایک دن پتہ چلا کہ ایک شادی شدہ عورت نے اسے اپنے عشق میں جکڑ لیا ہے۔ پھر کیا تھا عورت اس کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے لگی۔ وہ اس کی خوبصورتی میں اتنا کھویا کہ اپنے گھر والوں کو بھی بھول گیا۔ پھر وہ گھر میں اتنا کچھ ہی بھیجتا جتنا وہ اپنی معشوقہ پر خرچ کرنے کے بعد بچا لیتا۔ معشوقہ کے خاوند کو جب ان کے تعلقات کا پتہ چلا تو وہ اسے دبئی چھوڑ کر پاکستان واپس چلا گیا۔

 اس ڈائن نے حیات کی کمائی سے پاکستان میں اپنا بہت بڑا سا گھر بنا لیا اور وہ حیات کو چھوڑ کر پاکستان واپس آگئی۔  ایک دن اس کے گھر کی چمک دمک دیکھ کر اس کا شوہر بھی واپس آگیا اور وہ ہنسی خوشی اپنا بڑھاپا اکٹھے گزارنے لگے۔

حسینہ کی بیوفائی کو حیات نے دل پر لگا لیا اور وہ اداس رہنے لگا۔ پھر نہ اس کا من کام پر لگتا تھا اور نہ اسے بھوک لگتی تھی۔ اس کی اولاد بھی اس کی بیوفائی سہ سہ کر جوان ہو چکی تھی۔ بیوفائی کے صدمے نے اسے نڈھال کر دیا اور وہ ہسپتال جا پہنچا۔ اس کے جان پہچان والوں نے جب اس کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھی تو اسے پاکستان بھیج دیا۔

پاکستان میں اس کی بیوی اور اولاد نے بھی کوئی گھاس نہ ڈالی اور اس کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اسے دن رات طعنے دینے شروع کردیے۔ اس نے ہزار معافیاں مانگیں اور التجائیں کیں مگر اس کے خاندان نے اس کی کسی بھی دلیل کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالانکہ عزیز رشتہ داروں اور محلے والوں نے بھی اس کی بیوی کی بہت منتیں کیں مگر وہ نہ مانی۔

 شاید حیات کی قسمت میں اس کے گناہوں کی سزا اسی دنیا میں لکھی جاچکی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ اپنا دماغی توازن کھونے لگا اور نیم پاگل ہوگیا۔ سارا سارا دن وہ گلی میں بیٹھا فضاؤں میں گھورتا رہتا۔ شاید اسے اب بھی امید تھی کہ اس کی محبوبہ اچانک کہیں سے نازل ہوگی اور اسے اپنے ساتھ لے جائے گی۔ اسی انتظار میں وہ چند سال زندہ رہا۔ ایک دن گھر والوں کو کسی نے آکر بتایا کہ حیات گلی میں مرا پڑا ہے۔ انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر اس کا کفن دفن کیا اور پھر اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ اس کے بعد نہ کبھی کسی نے اس کو یاد کیا اور نہ ہی کبھی اس کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔