بینظیر نے معزول ججوں کی بحالی کا وعدہ کیا۔ مسلم لیگ نواز نے معزول ججوں کی بحالی کا نعرہ لگا کر انتخابات میں حصہ لیا۔ آصف زرداری نے معاہدہ مری میں معزول ججوں کو تیس دن کے اندر بحال کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب وہ ان تیس دنوں کی گنتی کبھی کابینہ کے پورے ہونے کے بعد شروع کرنے لگے ہیں اور کبھی صوبائی حکومتوں کے قیام کے بعد ۔

جب آصف زرداری کو حکومت مل گئی اور ان کے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل ہو گیا تو پھر ان کی نیت میں خلل آنے لگا یا پھر انہیں حقیقت معلوم ہونے لگی کہ ججوں کی بحالی میں بڑی بڑی رکاوٹیں حائل ہیں اور ان کو عبور کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ اور برطانیہ ہے جنہیں زرداری صاحب نے بیرونی جمہوری طاقتوں کا نام دیا ہے۔ انہی کے بل بوتے پر بے وردی یعنی ریٹائرڈ جنرل صدر مشرف بھی اکڑے بیٹھے ہیں۔ صدر مشرف کا اکڑنا تو جائز ہے کیونکہ انہوں نے ہی ان ججوں کو گھر بھیجا تھا۔

 اب جب زرداری صاحب کو یہ معلوم پڑا کہ بیرونی جمہوری طاقتیں چاہتی ہیں کہ وہ صدر مشرف کیساتھ ملکر چلیں تو پھر ان کیلیے ججوں کو تین نومبر کی پوزیشن پر بحال کرنا ناممکن ہوگیا۔ تب سے زرداری صاحب کہنے لگے ہیں کہ یہ جج کہاں تھے جب وہ جیل میں تھے۔ جج جمہوریت کیلیے نہیں بلکہ اپنی نوکریوں کیلیے اپنی بحالی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ زرداری صاحب اچھے بھلے عقلمند ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے اگر جج اپنی نوکریوں کو اولیت دیتے تو وہ پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیتے۔ اب وہ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ صرف ججوں کی بحالی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ سارے عدالتی نظام کو بدلنا پڑے گا۔ اس نظام کے بدلنے سے ان کی مراد صرف اور صرف چیف جسٹس کی نوکری کی مدت کا تعین ہے تاکہ وہ بیرونی جمہوری طاقتوں کی مرضی کیمطابق جلد ان سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔

سیدھی سی بات ہے ججوں کی معزولی ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں غیرآئینی اقدام کے ذریعے ہوئی اور اس غیرآئینی اقدام کی کسی نے بھی تعریف نہیں کی لیکن کوئی بھی اس غیرآئینی اقدام کو رد کرنے کیلیے تیار نہیں ہے۔ الطاف حسین، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان، نواز شریف اور آصف زرداری سب کے سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں کسی کے ذہن میں پاکستان کے عدالتی نظام کو درست کرنے کا خیال تک نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آزاد عدلیہ ایک دن انہی کیلیے عذاب بن جائے گی۔

معزول ججوں کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ چیف جسٹس کو قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں آرہی کہ صدر مشرف نے بحیثیت چیف آف آرمی سٹاف چیف جسٹس کے علاوہ ساٹھ دوسرے ججوں کو بھی معزول کیا تھا۔ اسلیے جب عدلیہ کی بحالی کی بات ہوتی ہے تو ان ساٹھ ججوں کی بحالی کی بات ہوتی ہے صرف چیف جسٹس کی نہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ جب تک بیرونی جمہوری طاقتیں ایک آمر اور ڈکٹیٹر صدر مشرف کی پشت پناہی کررہی ہیں تب تک معزول جج اپنی اصلی حالت میں بحال نہیں ہوں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرونی جمہوری طاقتوں کے مفاد میں یہی ہے کہ پاکستان میں کبھی جمہوری استحکام نہ آئے تاکہ وہ اپنے مہرے آسانی سے استعمال کرتے رہیں۔ اب اگر آصف زرداری ان بیرونی جمہوری طاقتوں کے آگے بے بس ہیں تو پھر وہ کیسے ججوں کو بحال کریں گے۔

  نواز شریف بھی صدر مشرف کیساتھ اپنی ذاتی دشمنی کی وجہ سے ججوں کی بحالی پر اڑے ہوئے ہیں۔ دراصل یہی ان کے مفاد میں ہے کہ وہ ججوں کی بحالی پر سخت سٹينڈ لیں۔ اگر وہ ججوں کو بحال نہیں کراسکتے تو پھر “صرف مرکزی حکومت” سے الگ ہو کر قومی ہیرو کا اعزاز حاصل کرلیں اور اگلے انتخابات ميں کلین سویپ کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن یہ تب تک ناممکن ہے جب تک انہیں بیرونی جمہوری طاقتوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور ان طاقتوں کی حمایت انہی کو حاصل ہو گی جو ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہیں گے۔

سچائی یہی ہے کہ معزول ججوں کو اپنی اصلی والی پوزیشن میں بحال ہونا چاہیے۔ صدر مشرف کے تمام غیرآئینی اقدامات کو آئین سے نکال دینا چاہیے۔ آئین کو توڑنے کے جرم میں ان کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ ملک میں عدلیہ آزاد ہونی چاہیے۔  جمہوری نظام کے تحت ایک ایسی جمہوری حکومت قائم ہونی چاہیے جو بیرونی جمہوری طاقتوں کے شکنجے سے آزاد ہو اور صرف اور صرف عوامی حکومت ہو۔ یہ ایک دیوانے کا خواب ہے جو شاید اپنی زندگی ميں پورا نہ ہوسکے کیونکہ ان کاموں کیلیے حکومت کی لگام ایک دیوانے کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو ابھی تک نہیں ہے۔