آجکل ملک میں جو سیاسی افراتفری پائی جاتی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ سیاستدان اپنی زبانوں سے اس طرح پھر یعنی مکر رہے ہیں جس طرح تھالی ميں کھیر پھر جاتی ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست بننے میں ایک لمحے کا توقف نہیں کررہے۔ ایک پارٹی اپنی حلیف پارٹی کی دشمن پارٹي کیساتھ پینگیں چڑھا رہی ہے اور دوسری پارٹي اپنے مخالفوں کے کیمپ میں گھسنے کی تیاری کررہی ہے۔ ابھی یہ گورکھ دھندہ ختم نہیں ہوا تھا کہ ضمنی انتخابات کو دو ماہ کیلیے ملتوی کر کے ایک اور بکھیڑا کھڑا کردیا گیا ہے۔

 وزیراعلیٰ سرحد کے کندھے پر رکھ کر جو بندوق چلائی گئی ہے نشانچی اس کا نشانہ خود ہی بنتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراطلاعات کا بیان ہے کہ اتنخابات کا التوا ایک سازش ہے۔ زرداری اور نواز شریف بھی غصے میں ہیں۔ وزیرقانون فاروق ایچ نائق نے چیف الیکشن کمشنر سے وضاحت مانگی ہے۔ مشیرداخلہ رحمن ملک نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال ابھی بہتر ہورہی ہے تاہم الیکشن کمیشں نے کن وجوہات کی بنا پر انتخابات ملتوی کیے ان کا جواب چیف الیکشں کمیشنر ہی دے سکتے ہیں۔

ابھی ان بیانات کا سلسلہ جاری تھا کہ الیکشن کمیشن کا بیان آگیا۔ ان کے بقول سرحد حکومت کی درخواست پر انتخابات ملتوی کئے گئے ہیں۔ اس بیان کے بعد وزیراعلٰی سرحد نے بتایا کہ جب مشیرداخلہ نے انہیں کہا کہ انتخابات کے التوا کیلیے تین صوبے مان گئےہیں آپ بھی مان جایے۔ اس کے بعد صوبہ سرحد کی حکومت نے انتخابات کے التوا کی درخواست الیکشن کمیشن کو بھیجی۔  پتہ نہیں یہ کیا ہو رہا ہے۔ پارٹي کے سربراہ تک کو یہ خبر نہیں ہے کہ اس کی پارٹی کا مشیرداخلہ کیا گل کھلا رہا ہے۔

 حیرانی کی بات یہ ہے کہ انتخابات کو ملتوی کرنے سے پہلے کسی جماعت کیساتھ مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ لیکن انتخابات کے التوا کے بعد اب سیکریڑی الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے کہنے پر انتخابات کا شیڈول دوبارہ بھی بدل سکتے ہیں۔ بھائی یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا۔

سیدھی سی بات ہے انتخابات کا التوا صدر مشرف کے حق میں جاتا ہے یعنی اگر انتخابات دیر سے ہوتے ہیں تو پھر ملک میں مہنگائی اور ججوں کی بحالی کے کرائسسز کا فائدہ مسلم لیگ ق اور صدر مشرف کو ہو گا۔ اب اس پس منظر میں مشیرداخلہ رحمٰن ملک نے انتخابات ملتوی کرا کے دو باتیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔  یا تو رحمٰن ملک اندرون خانہ صدر مشرف کیساتھ ملے ہوئے ہیں یا زرداری صاحب صدر مشرف کو فائدہ پہنچانے اور نواز شریف کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پارٹی کا سربراہ اپنے ایک حکومتی اہلکار کے فیصلے سے آگاہ نہ ہو۔

 پتہ نہیں یہ انہونیاں کب رکیں گی اور کب بھولے عوام کے سامنے ایسی بیوقوفیاں کی جاتی رہیں گی۔