جنرل مشرف نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے کے بعد جو سب سے پہلا کام کیا وہ قوم کے دل میں بیرونی جمہوری طاقتوں بشمول انڈیا کا خوب بٹھانا شروع کیا۔ اس سے پہلے ہر حکمران نے کم از کم بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی چاہے وہ ظاہری ہی ہو مگر جنرل مشرف نے تو وہ بھرم بھی توڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پیپلزپارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود ایٹمی طاقت بننے کی دسویں سالگرہ حکومتی لیول پر نہیں منائی جارہی۔

ہماری فوج کو بھی اتنے بڑے اثاثے پر اثاثے پر غرور نہیں ہے۔ یہ فوج چھ ستمبر کی یاد تو منا سکتی ہے جس میں اسے شکست ہوئی مگر ایٹمی طاقت بننے کی سالگرہ نہیں مناسکتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج کے دن قومی چھٹی کا اعلان کردیا جاتا اور اسلام آباد میں بہت بڑي پریڈ کا اہتمام کیا جاتا جہاں ایٹمی ہتھیار لے جانے والے میزائلوں کی نمائش کی جاتی تاکہ قوم جو مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہے کم از کم ایک دن تو اپنا غم ہلکا کرسکتی۔

لگتا ہے ہم نے اتنے بڑے دن کو بھی آپس کی چپقلش اور پرخاش میں ضائع کردیا ہے۔ زرداری صاحب سمجھتے ہوں گے اگر آج ایٹمی وقت بننے کی سالگرہ منائی گئی تو سارا کریڈٹ میاں برادران کو چلا جائے گا اور اس طرح پیپلز پارٹي کی سبکی ہو گی حالانکہ پیپلزپارٹی کو اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ایٹمی قوت بننے کی بنیار ان کے لیڈر بھٹو نے رکھی تھی۔

جنرل مشرف اسلیے آج کا دن منانے سے احتراز کررہے ہوں گے کہ اس طرح قوم کو ڈاکٹر قدیر کی یاد ستانے لگے گی اور یہ جنرل مشرف کو منظور نہیں ہے کہ ان کے آقاؤں کے ایما پر قید کیے جانے والے شخص کو قوم اچھے لفظوں سے یاد کرے۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت اکیلے ڈاکٹر قدیر نے نہیں بنایا تھا بلکہ ان کیساتھ سائنسدانوں کی پوری ٹيم تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ڈاکٹر قدیر کوئی بڑے سائنسدان نہیں تھے اور انہوں نے یہ ٹيکنالوجی کہیں سے چرائی تھی۔ مگر اس کیساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ کسی بھی منصوبے کا کریڈٹ ہمیشہ اس کے سربراہ کو جاتا ہے۔ اگر جنرل مشرف اپنے دور کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرسکتے ہیں اور شوکت عزیز اپنے دورے کی معاشي کامیابیوں کو اپنے کھاتے میں ڈال سکتے ہیں تو پھر ایمٹي طاقت بننے کا کریڈٹ ڈاکٹر قدیر کو کیوں نہیں دیا جاتا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر ڈاکٹر قدیر باہر سے ایٹمی راز نہ لاتے اور سائنسدانوں کی ٹیم کی رہنمائی نہ کرتے تو پاکستان ایٹمی طاقت کبھی نہ بنتا۔

چہ جائیکہ ہم اپنے محسن کو بھارت کی طرح ملک کا صدر بناتے اور اس کا یوم پیدائش اس کی زندگی میں شایان شان مناتے ہم نے اسے دوسروں کے کردہ جرائم کی سزا دے کر قید کردیا۔ طرح جس طرح فاتح محمدبن قاسم ، ایم ایم عالم اور ڈاکٹر عبدالسلام کی ناقدری کی، اسی طرح آج ہم نے ڈاکٹر قدیر کو قید رکھا ہوا ہے۔

ان تمام پابندیوں کے باوجود ڈاکٹر قدیر کی قدر قوم کی نظروں میں کم نہیں کی جاسکی۔ سب لوگ گارنٹی سے کہتے ہیں کہ اگر آج صدارتی انتخاب کا اعلان کیا جائے تو ڈاکٹر قدیر کے حق میں ننانوے فیصد ووٹ پڑیں گے۔ ایک فیصد جو مخالفت میں ووٹ دیں گے وہ بیرونی جمہوری طاقتوں کی غلام اشرافیہ اور ناقرض دہندگان ہوں گے۔

جنرل مشرف نے چار سال سے بھرپور کوشش کی کہ وہ ایٹم بم کے خالق کو قوم کی نظروں سے گرا دیں مگر آخر میں وہ خود ہی قوم کی نظروں سے گر گئے اور اتنے گرے کہ قصر صدارت ميں بیٹھ کر تمام ٹی وی چینلز پر قومی رہنماؤں اور سول سوسائٹي کی تنقید برداشت کر رہے ہیں۔ قومی ہیروز کی تذلیل کرنے والوں کی اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ آج جنرل مشرف کو تو کہ کر پکارا جانے لگا ہے اور کوئی بھی انہیں صاحب کہنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔

خدا ہمارے قومی ہیروز کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور انہیں رسوا کرنے والوں کو جنرل مشرف کی طرح ذلیل کرے۔ آمین