راولپنڈی کے سیاست دان شیخ رشید جنہوں نے اپنے حلقے سے چھ انتخابات جیتے مگر آخری انتخابات میں وہ دونوں حلقوں سے بری طرح ہارنے کے بعد مسلم لیگ ق سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے زندگی میں پہلی بار اپنی جماعت “عوامی مسلم لیگ” بنانے کا اعلان کر دیا۔

شیخ رشید احمد نے ایک طالبعلم لیڈر کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا اور اپنے جوش خطابت اور پارلیمنٹ میں منہ پھٹ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر شیر افگن کی طرح حزب اقتدار کیلیے بہت بڑا درد سر بنتے گئے۔ ان کی یہی خوبی حزب اقتدار کو مجبور کرتی رہی کہ وہ انہیں حکومت میں شامل کر لے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پچھلی چند حکومتوں میں نہ صرف شمولیت اختیار کی بلکہ وہ اہم وزارتوں پر بھی فائز رہے۔

لیکن ان جیسے لوگوں کا سیاسی قد تب چھوٹا ہو جاتا ہے جب وہ حزب اقتدار کی سیٹ سے ہار جاتے ہیں اور آنے والی حکومت کیلیے خطرے کا باعث نہیں رہتے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ اب وہ موجودہ حکومت کا حصہ نہیں بن پائیں گے کیونکہ پارلیمنٹ میں حزب اقتدار کو مشکل سے دو چار کرنے کیلیے ان کے پاس ممبرشپ ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف انہوں نے میاں برادران کی دوستی پر لات مار کر جس جنرل کی آٹھ سال حمایت کی وہ اب اپنی کرسی بچانے کے چکر میں ہے اور شیخ رشید کی مدد کرنے سے معذور ہو چکا ہے۔

شیخ صاحب نے نئی پارٹی عوامی مسلم لیگ بنا کر بہت بڑی بیوقوفی کی ہے۔ ایک تو اس وقت ان کیساتھ کوئی اور قومی لیول کا سیاستدان نہیں ہے، دوسرے ان کی اسٹیبلشمنٹ اور خاص کر فوج میں فی الحال کوئی پوزیشن نہیں ہے۔ تیسرے اس وقت وہ اسمبلی سے باہر بیٹھے ہیں۔ ان کیلیے بہتر یہی تھا کہ وہ اب سیاست سے وقتی طور پر کنارہ کشی اختیار کرلیتے اور جنرل مشرف کو بھی کہتے کہ خدارا اب بس کریں۔

ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ زیادہ سے زیادہ مقامی مسلم لیگ ہی رہے گی اور وہ ایک دن موقع پا کر حکمران جماعت میں اپنی جماعت کو زم کر دیں گے۔ کیونکہ موجودہ دور میں اکیلا آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔ ویسے ارباب رحیم کی طرح ان کی زبان کے شر سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرنے کیلیے کوئی اور سیاستدان ملا ہی نہیں۔

سیاستدان کی زندگی میں اکیلا پن تب آتا ہے جب وہ اپنے دور حکومت میں اور خصوصی طور پر ڈکٹیٹر کے ہر اچھے برے فعل کی تائید کرتا ہے اور عوام سے دور ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد حالات پلٹا کھائیں اور شیخ صاحب کو کوئی اور آسرا مل جائے۔ فی الحال تو شیخ صاحب کو سیاست کے سمندر سے باہر ہی رہنا پڑے گا۔ ہمیں شیخ صاحب کی موجودہ حالت سے پوری ہمدردی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، سیاستدان اسمبلی سے باہر رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔

کتنا اچھا ہوتا ملک اور قوم کیلیے اگر شیخ صاحب اپنے جوش خطابت اور ہوشیاری کی توانائیاں ایک ڈکٹیٹر کی حکومت کو دوام بخشنے کی بجائے جمہوریت کی بحالی کیلیے صرف کرتے تو آج عوامی مقبولیت کے عروج پر ہوتے اور لوگ ان کی ضمانت ضبط نہ ہونے دیتے۔