دنیا میں بڑے بڑے ڈھیٹ انسان دیکھے ہیں مگر ڈکٹیٹروں سے بڑا دھیٹ کوئی نہیں ہو گا۔ دنیا کے کسی بھی ڈکٹیٹر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہ کبھی بھی عزت سے ریٹائر نہیں ہوا۔ اس جدید دور میں بھی جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹر بھی اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ اپنی غلطیوں سے تو ہر کوئی سبق سیکھتا ہے مگر کہتے ہیں عقل مند وہ شخص ہوتا ہے جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے۔ جنرل مشرف کی زندگی میں کتنے ڈکٹیٹر اپنی آخری عمر میں گیدڑ کی زندگی جئے اور کتے کی موت مرے مگر جنرل مشرف صاحب نے ان کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

عام زندگی میں اگر ایک باشعور آدمی کی بھرے بازار میں کوئی بے عزتی کر دے تو وہ مرنے مارنے پر تل جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کیلیے لڑکی کے والد اور بھائی اسے جج کے سامنے بھری عدالت سے اٹھا کر لے گئے۔ لیکن ہمارے جنرل مشرف بہت ہی ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں۔ آجکل ان کی وہ مٹی پلید ہو رہی ہے کہ خدا کی پناہ۔ لوگ سرعام گالیاں دے رہے ہیں، بکواس کر رہے ہیں، صاحب سے خالی مشرف اور اب تو مشرفو تک نوبت پہنچ چکی ہے مگر اپنے وقت کے کمانڈو آج بھیگی بلی بنے اپنی تذلیل ہوتے ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے بستر مرگ پر مریض بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔

بے عزتی سے بچنے کیلیے زندگی میں آدمی کیلیے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو وہ میدان چھوڑ دے یا پھر مقابلے کیلیے میدان میں کود پڑے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ آدمی میدان میں جوتے بھی کھاتا رہے اور عزت بھی بچائے رکھے۔ جنرل مشرف کو بھی چاہیے تھا کہ یا تو وہ گالیاں دینے والوں کےمنہ بند کرتے یا پھر میدان خالی کر دیتے۔ کہاں ایک دبدبے والا جنرل جو کبھی نواز شریف اور آصف زرداری کو کک مارنے کی بات کیا کرتا تھا کہاں اب یہ بزدل جنرل ریٹائرڈ مشرف جو بھرے بازار میں گالیاں کھا کر بھی خاموش ہے۔

کل لاہور میں وکلا نے جنرل ریٹائرڈ مشرف کی جو مٹی پلید کی اگر وہ تھوڑے سے بھی عقل مند ہوتے تو وہ صدر کے اس عہدے سے مستعفی ہو جاتے جس کو وہ عزت دار پیشہ سمجھتے ہیں۔ اس تذلیل کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ لوگ انہیں ذلیل نہیں کررہے بلکہ پاکستانی صدر کے متبرک عہدے کو بدنام کر رہے ہیں۔ خدا کے بندے اگر لوگوں کو اس متبرک عہدے کا خیال نہیں رہا تو کم از کم آپ تو اس عہدے کو متبرک رہنے کا موقع دو اور اسے چھوڑ دو۔

علی احمد کرد نے مشرف کو وہ مغرور بادشاہ قرار دیا جو اب ناکارہ ہو چکا ہے۔ اعتراز احسن نے مشرف کو تھیٹر کے باہر نکلنے والے دروازے پر کھڑا ہونے والا کہا جو اب صرف ایک چھوٹے سے دھکے سے ڈھیر ہونے والا ہے۔

اگر جنرل ریٹائرد اور ان کے حواری ان کی بچی کچھی عزت بچانا چاہتے ہیں تو انہیں یا تو وکلا اور سول سوسائٹی کے لوگوں کی زبان بندی کرنی ہو گی یا پھر میدان خالی چھوڑنا ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ایوان صدر میں کانوں میں انگلیاں ڈالے بیٹھے رہیں اور اپنے آپ کو صدر بھی کہلوائیں۔ اگر آپ عوام کی زبان بندی نہیں کرسکتے تو پھر خدا کیلیے عزت سے کرسی چھوڑ دیجیے یہی آپ کیلیے بہتر ہے۔