ہم نے جس ہائی سکول سے تعلیم حاصل کی اس کے پڑوس میں ایک ٹیچرسکول تھا جہاں آٹھویں تک تعلیم کا بھی بندوبست تھا۔ ان دنوں یہ سکول تعلیمی معیار کے لحاظ سے ٹاپ پر تھا اور اس سکول کے طلبا جب ہمارے سکول نویں جماعت میں داخل ہوتے تو اکثر انہی میں سے میڑک کے امتحان میں ٹاپ کیا کرتے تھے۔ وفاقی وزیر اور پیپلزپارٹي کے لیڈر قمرزمان کائرہ اسی سکول سے مڈل کرکے ہمارے سکول آئے اور انہوں نے ہمارے ساتھ ہائی سکول کیا۔ اس وقت یہ لڑکا اپنے موڈ میں رہتا اور کسی سے کم ہی بات کرتا تھا کیونکہ یہ سمجھتا تھا کہ باقی لوگ اس کے معیار کے نہیں ہیں۔ اس کی چال ڈھال بدمعاشوں والی تھی اور لڑکے اس سے ڈرتے بھی تھے۔ اس وقت اس کا باپ سیاست میں تھا اور ایم پی اے بھی شاید بن چکا تھا۔

ہائی سکول کے بعد ہم بچھڑ گئے اور قمرزمان کا نام دوبارہ تب سنا جب انہوں نے اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ ان کو زیادہ مشہوری جنرل مشرف کے دور میں میڈیا کی آزادی سے ملی جب انہوں نے ٹاک شوز میں حصہ لینا شروع کردیا۔ ان کے خاندان کی کافی عرصہ اپنے علاقے کے سیاستدان اور بدمعاش منظور شاہ کے قبیلے سے دشمنی رہی۔ کبھی منظور شاہ اسمبلی میں ہوتا تو کبھی کائرہ خاندان۔ اس خاندان کی قسمت جگانے میں توقیر کائرہ کا بھی بڑا ہاتھ ہے جس نے آصف زرداری کیساتھ دوستی قائم کرلی اور بعد میں بینظیر کی جان بچاتے ہوئے انہی کیساتھ بم دھماکے میں مارا گیا۔

آصف زرداری نے توقیر کائرہ کی قرباننی کی قدر کی اور کائرہ خاندان کو اس دفعہ ایک وفاقی اور ایک صوبائی وزارت دے دی۔ اس کامیابی کے بعد کائرہ خاندان کو تکبر نے آ گھیرا اور چند روز قبل ان کے خاندان کے افراد تیس چالیس مسلح افراد کیساتھ ایک پلازے پر قبضہ کرنے یا قبضہ چھڑانے سرائے عالمگیر پہنچ گیے۔ وہاں ان کی مڈبھیڑ پولیس کی نفری کیساتھ ہوئی اور اس مقابلے میں تین پولیس والے مارے گئے اور ایک کائرہ پارٹی کا فرد قتل ہوا۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنا آدمی جان بوجھ کر قتل کیا تاکہ پولیس والوں کے قتل کا مقدمہ کمزور بنایا جاسکے۔ تب سے پولیس نے کائرہ فیملی کے کئ افراد گرفتار کرلیے ہیں اور کچھ کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

پولیس کے محکمے نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے قتل کا مقدمہ لڑے گا مگر لگتا یہی ہے کہ سرکاری اہلکار قتل ہونے کی وجہ سے مقدمہ ڈھیلا پڑ جائے گا اور کائرہ فیملی اس زیادتی سے بری کر دی جائے گی۔ لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ جب آدمی اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے لگتا ہے تو اس سے کیا کیا حماقتیں سرزد ہو جاتی ہیں۔ خدا کے بندو جب حکومت ہی تمہاری ہے تو آرام سے لوٹ مار کرتے رہنا تھا تمہیں اسلحہ کے زور پر پلازے کا قبضہ لینے کی کیا ضرورت تھی۔

ان چوہدریوں نے اپنے حریف منظور شاہ کی سیاسی زندگی سے ذرہ برابر بھی سبق نہیں سیکھا۔ اس شخص نے اپنے حریف ایک ایک کرکے ختم کئے مگر کبھی کسی حملے میں خود ملوث نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بہت لمبی عمر پائی یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی آخر میں مشین گن کی گولیوں کی بوچھاڑ سے کتے کی موت مرا۔

کائرہ فیملی کے طرز عمل سے یہ سچ ثابت ہوا ہے کہ کوئی کوئی جر کے کھاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ طاقت کے نشے میں اندھے ہو جاتے ہیں اور ایک دن گندے نالے میں جا گرتے ہیں جہاں کا تعفن ان کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔