جاوید گوندل صاحب نہ صرف ہمارے بلاگ بلکہ باقی تمام بلاگز کے قاری ہیں اور پچھلے چند ماہ سے وہ مسلسل ہماری تحاریر پر اظہار خیال کر کے ہمیں عزت بخش رہے ہیں۔ بعض اوقات ان کا خلوص ان کے تبصروں میں اتنی روانی پیدا کر دیتا ہے کہ ان کا تبصرہ ایک مکمل تحریر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ان کی اسی خوبی کو دیکھتے ہوئے راشد کامران صاحب اور قدیر احمد صاحب نے انہیں اپنا بلاگ شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے جسے انہوں نے اپنی پیشہ ور مصروفیات کی وجہ سے فی الحال قابل عمل نہیں سمجھا۔ ویسے مشورہ اپنی جگہ پر کارآمد ہے اور اگر جاوید گوندل صاحب چاہیں تو ہم لوگ ان کا بلاگ سیٹ کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

ہم ان کے ایک تازہ تبصرے کو یہاں نقل کرنے جارہے ہیں جسے پڑھ کر آپ بھی ہم سے اتفاق کریں گے اور جاوہد گوندل صاحب سے اصرار کریں گے کہ وہ اپنا بلاگ شروع کرکے اردو کمیونٹی میں ایک اچھے لکھاری کا اضافہ کرنے کا سبب بنیں۔ امید ہے وہ ہم سب کی گزارش کو آسانی سے ٹال نہیں سکیں گے۔

آئیں اب ان کا مندرجہ ذیل تبصرہ پڑھیں

ہمارے ہاں سیاستدانوں کی اکثریت  کے پیشِ نظرغالباََ منافقت اور مفاداتی مصالحت ہی سیاست کا دوسرا نام ہے ۔ مگر کب تک ؟ کیونکہ ایسی سیاست جو صرف اورصرف اپنے مفادات پر مبنی ہو ۔ جس میں جمہور کی رائے کو قطعی اہمیت نہ ہو ۔قوم کو باعزت بنانے میں، عوام کے حقوق دلوانے میں کوئی کردار نا ہو، وہاں معاملات کے دن گنے چنے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ضمیر فروش لوگوں نے ملک و قوم کے اثاثوں کی بندر بانٹ کے بعد۔ عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کے بعد، غریب اور مفلوک الحال افلاس کی ماری قوم کا آخری قطرہ کشید کرنے کے بعد، محض اپنے اللے تللوں، محلات، ڈیفنس اور ملک کی انتہائی مہنگی پوش کالونیوں میں کروڑوں نہیں بلا مبالغہ اربوں مالیت کے قیمتی پلاٹوں، دوبئی، برطانیہ، امریکہ، سوئزرلینڈ، یوروپ اور دوسرے غیرممالک میں کمپنیوں کے شئیر، کاروبار میں شراکت، بڑی بڑی جائیدادیں اور بینکوں میں کروڑوں ڈالر کے اکاؤنٹ، فارموں، نہر ی زمینوں۔داشتاؤں، اپنی اور اپنے اقارب کی جاہ حشمت کی خاطر یہ عیار اور ہر قسم کی دینی ، قومی اور ملی حمیت اور غیرت سے عاری یہ طبقہ قوم کے بیٹوں اور آئیندہ نسلوں کو بھی بیچ کر اسکے دام کھرے کر چکا ہے ۔ غضب خدا کا ہماری کئی نسلیں پیدا ہونے سے پہلے ہی بیچی جا چکی ہیں- اس مفاد پرست طبقے کی ہوسناکی کا یہ عالم ہے کہ محض اپنے مفدات کی خاطر یہ طبقہ مفلوک الحال قوم کا کی غیرتِ ایمانی کا سودا بھی اغیار سے کرنے پہ تیار ہے ۔

نظام کوئی بھی ہو اسے چلانے کے لئے دیانتداری بنیادی اور اہم شرط ہے ۔ بے ایمان آدمی مسجد میں بھی ہیراپھیری کی کوئی صورت نکال لیتا ہے ۔ جبکہ نیک آدمی شراب خانے سے بھی عابد اور پارسار برآمد ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ (ایلٹ کلاس) انتہائی کم ظرف ہے اور بدیانت ہے ۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے اور مبینہ طور پہ ملک کو پتھر کے دور میں لے جانے کی دہمکی سے ڈرجانے والے جنرل مشرف اور حواریوں سے پوری قوم یہ سوال کرتی ہے، کیا آپ کے اقدامات کے بدلے آج کا پاکستان ذیادہ محفوظ ہے اور پتھر کے دور کی تاریکیوں کی بجائے اکسیویں صدی کی کونسی ریاست سے بہتر ہے ؟۔ وہ نعرے لگا کر لُوٹ چکے، یہ نعرے لگا کر لُوٹ رہے ہیں مگر قوم کی قسمت ہر گزرنے والے دن کیساتھ تاریک ہوئی جاتی ہے۔ اور نئی آنے والی حکومت پھر سے عزیز ہموطنو، خزانہ خالی یا پھر سابقہ حکوت کی کوتاہیوں کی اور مسائل کے انبار کو کوسنے سے لوٹ کھسوٹ اور بندر بانٹ کا کاروبار شروع کرے گی ۔ اور پھر سے نیا مفاہمتی( یا منافقتی) آرڈیننس جاری ہوگا اور بڑے بڑے جغادری قسم کے گناہگار جنہوں نے ملک و قوم کے اربوں نہیں کھربوں روپے شیرِ مادر سمجھتے ہوئے ڈکار تک نہ لی اور پی گئے، قوم کو بھوک اور غربت کی اتاہ تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ ایک آمر کی یک بہ جنبش قلم سے ناں صرف پاک صاف ہوجائیں گے، انکے مقدمات انکی سزائیں معاف ہوجایئں گی۔ وہ ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئےبچے کیطرع معصوم کہلائیں گے۔ بلکہ وہ عزت مآب قرار دیے جائینگے اور قوم پہ انکی توقیر اور عظمت فرض کر دی جائیگی اور ایک دفعہ پھر انکے ہاتھ ہر معاملے میں آزاد ہونگے۔ مگر کب تک؟ یہ بند گلی کی سیاست کب تک؟۔ ایک دن تو گلی کے بند سرے سے واسطہ پڑے گا۔ عوام کے پاس تلوار اور دیوار کے درمیان بہت کم جگہ بچی ہے اور ہرگزرنے والے دن کے ساتھ جگہ مزید کم ہوتی جارہی ہے۔ عوام کا صبر آخری حدوں کو چھو رہا ہے ۔ رشیداں اور مجیدن کے چھولوں کی آگ مزید کم ہوتی جارہی ہے اور بچوں سمیت نہروں دریاؤں میں کود کر انکی خود کشیاں بڑہتی جارہی ہیں ۔ مہینوں کے حساب سے روزانہ کام کی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد سرشام ٹرین کی پٹڑی پہ سر رکھ کر گردن کٹا دینے والے چھیمے اور شیدوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ بستیوں کی بستیاں ، شہروں کے شہر اندھیروں میں ڈوبتے جارہے ہیں ۔ مگر کب تک؟ جس دن محروم عوام کے جذبات کے سیل رواں کا رخ بدلا تو ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی اور نظام کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی ۔ اسلیے پاکستان میں مقتدرہ طبقے کو چاہیے کہ اس سے پہلے کہ یہ واردات ہو وہ کچھ کر لیں اور انکے پاس وقت واقعی بہت کم ہے۔

ایسے میں ایک غیر ملکی سروے کیمطابق اگر ملک کے چھیاسی فیصد عوام نواز شریف پہ اعتماد کرتے ہیں، یقین رکھتے ہیں، تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ عوام ججوں کی بحالی میں نواز شریف کی سنجیدگی اور تگ و دور کو ججوں کی بحالی کے اپنے جائز مطالبے میں شریک سمجھتے ہیں ۔اس لئیے لوگ نواز شریف کو اپنا خیال کرتے ہیں ۔ ہر پارٹی کی شناخت سے بالا عوام کے نزدیک ججوں کی فوری بحالی ناگزیر اور بہت ضروری ہے – کوئی تو ہو جو ان (عوام) کے اشک چن لے اور افتخار محمد چوہدری کی طرع انکے سر پہ ہاتھ رکھ دے ۔ نواز شریف اور عوام میں یہ مشترک قدر نواز شریف کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کرتی ہے ۔ اور یہ نواز شریف پہ ہی منحصر نہیں جو بھی موجودہ حالات میں بلکتے عوام سے پرساری کرے گا عوام اسے سر آنکھوں پہ بٹھائیں گے۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا، اسپین