جب بھی جمہوری دور کا آغاز ہوتا ہے سیاستدان حکمران کھلی کچہریاں لگانا شروع کردیتے ہیں۔ اسی ہفتے ابھی کراچی میں شیری رحمان نے کھلی کچہری لگائی اور لاہور میں شہباز شریف نے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کھلی کچہریوں سے پاکستان کا نظام بدلا جا سکتا ہے یا کیا تمام محروم افراد کی داد رسی کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جواب ناں میں ہی ہو گا۔ کھلی کچہری سے آپ چند مظلوم افراد کی شکایت سن کر ان کی داد رسی تو کر سکتے ہیں مگر معاشرے میں ظلم کا شکار تمام افراد کو ریلیف نہیں دے سکتے۔ کھلی کچہری سے آپ ذاتی سیاسی فائدہ تو اٹھا سکتے ہیں مگر معاشرے کو مجموعی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ کھلی کچہری سے آپ چند ایک کو جھاڑ پلا سکتے ہیں مگر تمام افسران کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔

حکمران اگر ذاتیات سے اوپر اٹھ کر پاکستان کیلیے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پھر کھلی کچہریوں پر ضائع کیے گئے وقت کو اسمبلی میں بیٹھ کر کارآمد بنائیں۔ وہ اسمبلی سے ایسے قوانین پاس کرائیں جن کی مدد سے معاشرے سے ظلم ختم ہو سکے۔ شہباز شریف اور دوسرے حکمران اگر ملک اور عوام کیساتھ واقعی مخلص ہیں تو پھر انہیں چاہیے کہ وہ موجودہ نظام کو ایسے لاگو کریں کہ انہیں کھلی کچہریاں لگانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

یقین مانیں اگر ہمارے حکمران اینٹی کرپشن کے محکمے میں چند سو انتہائی مخلص اور ایماندار لوگوں کو بھرتی کر لیں اور ان کو یہ ڈیوٹی سونپ دیں کے معاشرے سے رشوت اور سفارش کی لعنت کو ختم کرنا ہے تو ملک کے آدھے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ اگر اینٹی کرپشن والے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے کرپٹ آفیسروں کو پکڑ پکڑ کر میڈیا کے سامنے پیش کرنا شروع کردیں تو یقین مانیں پھر رشوت لیتے ہوئے افسران سو بار سوچا کریں گے۔

ضیا کے دور میں ٹي وی پر کرپشن کو پکڑنے کیلیے ایک پروگرام شروع ہوا۔ جس کا اینکر کسی بھی فیکٹری پر چھاپہ مارتا اور لوگوں کو ملاوٹ اور جعل سازی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا۔ ان کو ٹي وی پر مرچوں میں اینٹوں کا سفوف ملاتے ہوئے دکھاتا، جعلی دوائیاں بنتی دکھاتا، دودھ میں ملاوٹ دکھاتا اور سرعام انہیں شرمندہ کرتا۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشرے میں کرپشن کی وجہ سے اتنے واضح شواہد ہونے کے باوجود کسی کو سزا تک نہ ہوئی بلکہ یہ پروگرام ہی بند کردیا گیا۔

اگر شہاز شریف مظلوموں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو خدا کیلیے کھلی کچہری کی بجائے نظام کی درستگی پر توجہ دیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہسپتال کے انچارج کو معطل کرکے تمام طبی اداروں کو درست کرلیں گے تو وہ غلطی پر ہیں۔ انہیں اینٹي کرپشن کے ایسے ادارے کی پشت پناہی کرنی ہو گی جو پنجاب کے تمام اداروں کو درست کر کے رکھ دے۔

یہ کھلی کچہریاں تو آمروں کی نشانیاں ہیں جو صرف دکھاوے کیلیے کبھی لوگوں کو سرعام کو ڑے مارا کرتے تھے اور کبھی دکانوں پر جالیاں لگوا دیا کرتے تھے۔ جمہوری حکمران کا کام ہے کہ وہ اسمبلی کے فلور سے اپنی تحریک شروع کرے اور سارے نظام کو درست کرے ناں کہ چند افراد کی داد رسی کرکے سمجھے کہ اس نے بہت بڑا معرکہ مارا ہے۔ کھلی کچہری تو سرا سر نمودونمائش ہے اور کچھ نہیں۔