سو کے ہندسے سے ٹیپو سلطان کا ایک قول وابسطہ ہےجو ہر غیرت مند اور بہادر آدمی کیلیے مشعل راہ ہے۔ ٹیپو سلطان نے کہا تھا “گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر ایک کی دن کی زندگی بہتر ہے” یعنی گیدڑ سو سال ڈر ڈر کر جیتا رہے تو کس کام کا۔ اچھا ہے آدمی شیر کی طرح جئے بیشک ایک دن ہی سہی۔ مگر اب یہ قول دیوانے کی بڑھک سمجھا جاتا ہے اور سیاستدان اسے بیوقوفی کہتے ہیں۔ سیاستدانوں کے بقول سو سال جیو بیشک کسی کے غلام بن کر۔ ان کیلیے ایک دن کی زندگی بہت مختصر ہے۔ ان کا اس بات پر پکا ایمان ہے کہ یہ زندگی دوبارہ نہیں ملے گی۔

یہی وجہ ہے کہ سیاستدان جب حکمران بنتے ہیں تو پھر وہ پانچ سال پورے کرنا چاہتے ہیں چاہے اسکیلیے انہیں گیدڑ ہی کیوں نہ بن کر رہنا پڑے۔ یہی صورتحال موجودہ حکومت کی ہے اور اسی وجہ سے حکومت کےپہلے سو دن گیدڑ کے سوسال کی طرح غلامی میں گزرے ہوئے بیکار دنوں کی طرح ہی ہیں۔

ان سو دنوں میں حکومت کو آخر کار اپنے آقاؤں کی بات ماننی پڑی اور اس نے قبائلی علاقوں میں دوبارہ آپریشن شروع کر دیا جس کے جواب میں پہلے اسلام آباد میں دھماکہ ہوا اور پھر کراچی میں۔ حکومت نے ایک طرف اپنے سپاہی تو دوسری طرف عوام اپنے آقاؤں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیے۔

حکمرانوں نے ان سو دنوں میں ثابت کردیا کہ ان کی حکومت بھی جنرل مشرف کے دور کا تسلسل ہے۔ اس حکومت کی بھی جنرل مشرف کی طرح کئی مجبوریاں ہیں جن کو نہ تو ظاہر کیا جا سکتا ہے اور نہ ان سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان مجبوریوں میں سب سے بڑی مجبوری اپنے عوام کے ساتھ غداری ہے۔ حکومت کو بیرونی جمہوری طاقتوں نے وارننگ دے رکھی ہے کہ جس دن اس نے عوام کی فلاح کیلیے کوئی قدم اٹھایا اس دن اس کی چھٹي ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے حکومت نے جی بھر کر توانائی مہنگی کی تاکہ ہماری مقامی صنعت تباہ ہو جائے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کنٹرول نہیں کیں تا کہ عوام دال روٹی کے چکر میں مزید پھنس جائیں اور انہیں ملک کیلیے سوچنے کی فرصت ہی نہ ملے۔

حکومت نے جنرل مشرف کی سنت پر چلتے ہوئے کئی وعدے توڑۓ، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں آپریشں جاری رکھا،، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب رہنے دی، وکلاء کی تحریک کو اپنی جوتی کی نوک پہ رکھا، اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری رکھی۔

حکومت اگر مخلص ہوتی تو اپنے پہلے سو دنوں میں سر جوڑ کر بیٹھتی اور تب تک سر نہ کھجاتی جب تک عوام کے بنیادی مسائل کا مختصر نوٹس پر عارضی حل تلاش نہ کر لیتی۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر گندم درآمد کرکے آٹے کے بحران کو ختم کرتی۔ ایران سے بجلی اور گیس خرید کر عوام کو سستے داموں تونائی فراہم کرنے کا بندوبست کرتی۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر بنانے کیلیے ہزاروں افراد کا ایک قافلہ ترتیب دیتی جو ملک سے کرپشن جیسی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے۔

مگر حکومت چونکہ بے بس اور بکی ہوئی ہے اسلیے اس نے نہ تو اپنے پہلے سو دنوں میں ایسے کوئی اقدامات کئے جن کی وجہ سے آئندہ عوام کو ریلیف ملنے کی امید پیدا ہوتی اور نہ ہی پانچ سالہ منصوبہ بندی کی ہے۔ ویسے سیدھی سی بات ہے جو حکومت سو دن میں کچھ نہیں کر سکی وہ پانچ سالوں میں بھی کچھ نہیں کرے گی۔

جس دن ملک میں مخلص حکومت وجود میں آئی اس کی نشانیاں پہلے سو دنوں میں ہی نظر آ جائیں گی۔ کہتےہین پتر کپتر پوتڑوں سے ہی پہچانے جاتے ہیں یعنی اگر کسی میں گن ہوں تو وہ پہلے دن سے ہی نظر آجاتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں جو گن تھے وہ ہمیں اس کے پہلے سو دنوں میں نظر آگئے ہیں۔

ان سو دنوں کی کارکردگی کو دیکھ کر ایک عام آدمی یہی سمجھے گا کہ موجودہ حکومت بھی بیرونی جمہوری طاقتوں کی چاکری کرتی رہے گی اور عوام کیلیے کچھ نہیں کرے گی کیونکہ اسے معلوم ہے عوام اگلے انتخابات سے پہلے کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح حکومت اصل بجٹ کے بعد منی بجٹ پیش کرتی رہتی ہے اسی طرح عوام بھی عام انتخابات کے بعد بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ گاہے بگاہے کرتے رہتے تاکہ حکومت انہیں ریلیف دینے کیلیے پانچ سال انتظار کرنے کی بجائے ابھی کچھ کرتی۔ مگر لگتا ہے موجودہ مہنگائی میں عوام ابھی زندہ رہ سکتےہیں۔ جس دن عوام مہنگائی سے فاقے کرنے پر مجبور ہو گئے اس دن وہ منی انتخابات منعقد کریں گے اور حکمرانوں کو پھر دن میں تارے نظر آئیں گے۔