حرام کا مال اکٹھا کرتے ہوۓ نہ ڈرنے کي ايک سے زيادہ وجوہات ہیں۔ جن میں دو سب سے اہم ہيں۔
١۔ ہم لوگوں کے دلوںميں خوفِ خدا نہيں رہا۔
٢۔ ملک ميں قانون موثر طور پر کام نہيں کر رہا۔
يہي دو بنيادي اصول ہيں جن کي بنياد پر سارے مزاہب کي بنياد رکھي گئ ہے۔ ہمارا مزہب اسلام بھي پہلے ہماري اخلاقي تربيت کي طرف مائل کرتا ہے اور پھر دوزخ اور جنت کا آئيڈيا ہميں برائيوں سے بچنے کي ترغيب ديتا ہے۔ انہي بنيادوں پر آج کا جديد معاشرہ بھي قائم ہے۔ پہلے آنے والي نسل کو گھر ميں اور پھر سکول ميں ايک اچھا شہري بننے کي تعليم دي جاتي ہے اور پھرملکي قوانين کي سختي سے ڈرا کر شہريوں کو اچھائي کي طرف راغب کيا جاتا ہے۔ يہ دونوں کام تبھي موثر ہوتے ہيں جب ان پر سختي سے عمل کيا جاتا ہے اور کہيں بھي يہ باور نہيں کرايا جاتا کہ رعايا قانون کي خلاف ورزي کے بعد پکڑي نہيں جاۓ گي۔ جہاں جہاں قانون کي حکمراني ہے وہاں عام پبلک خوش ہے اور وہ ملک ترقي بھي کر رہا ہے۔ يورپ کي مثال ہمارے سامنے ہے جس کي برائياں گنتے ہمارے ملّا کي زبان نہيں تھکتي مگر ان برائيوں کے باوجود يہ لوگ دنيا پر حکمراني کر رہےہيں اور ہم مسلمان جو اپنے آپ کو اللہ کي سب سے پسنديدہ مخلوق سمجھتے ہيں دنيا ميں رسوا ہو رہے ہيں۔
ہمارے ملک ميں بھي انہي دونوں اصولوں کو جي بھر کر پامال کيا جا رہا ہے۔ آنے والي نسل کي ايک تو تربيت ٹھيک نہيں ہو رہي اور پھر موجودہ نسل بھي قانون کو صرف حکمرانوں کا کھلونا سمجھتي ہے۔ آجکل فراڈ کي تعليم ہميں ماں کي گود سے ملنا شروع ہو جاتي ہے جب بچےکو لالچ فريب سے بہلايا پھسلايا جاتا ہے۔ پھر سکول ميں رہي سہي کسر نکال دي جاتي ہے جب لالچي استاد اپنے شاگردوں سے طرح طرح کي ناجائز فرمائشیں کرتےہيں۔ اسي طالبعلم کو کلاس کا تارہ بنايا جاتا ہے جو يا تو استاد کے پاس ٹيوشن پڑھتا ہے يا پھر اس کا خاندان بڑا ہوتا ہے۔
اسي طرح ہم لوگ قانون سے بلکل نہيں ڈرتے اور سمجھتے ہيں کہ پيسے سے سپاہي سے لے کر جج تک خريدے جاسکتے ہيں۔ اگر آپ غريب ہيں تو آپ کا کيس ہي تھانے ميں درج نہيں ہو گا اور اگر امير ہيں تو ايف آئي آر ميں آپ اپنے دشمن کے پورے کے پورے خاندان کا نام درج کراليںگے۔
ثابت يہي ہوا کہ ہم حرام کماتے ہوۓ اسلۓ نہيں ڈرتے کہ ہمارے ہاں قانون کي حکمراني نہيں ہے۔ اب ہم تيسرے کيوں کي طرف آتے ہيں۔
ہمارے ہاں قانون کي حکمراني کيوں نہيں ہے؟
آپ بھي راۓ ديجۓ ورنہ ہم تو اگلے روز اس پر اپني راۓ ذني ضرور کريں گے۔