پاکستان بننے سے پہلے جن لوگوں کو انگريزي حکومت نے غدّاري کے عوض زمينوں سے نوازا وہ لوگ نواب اور جاگيردار بن گۓ اور جن لوگوں نے اپنے ايمان کي بنا پر انگريزوں کي مخالفت کي ان سے زمينيں چھين لي گئيں اور ان کو کنگال کر ديا۔ پاکستان بننے کے بعد يہي غدار جاگيردار اور وڈيرے حکومت ميں شامل ہوگۓ اور انہوں نے پبلک کا استحصال کرنا شروع کر ديا۔
اس کے ساتھ ايک اور جنس انتظاميہ کي شکل ميں گوروں کي غلامي کرتي رہي ۔گوروں نے انہي کي مدد سے مسلمانوں کو جي بھر کر ذليل کيا اور عام آدمي کو غلام بنا کر رکھ ديا۔ يہي انتظاميہ ملک بننے کے بعد اپنے جاں نشينوں کو اسي طرح کي تربيت دے کر ميدان ميں اتارتي رہي کہ عام پبلک کو اتنا زچ کرکے رکھو کہ اس کو کبھي احتجاج کرنے کي سوچ بھي نہ آۓ۔ اس انتظاميہ کي تربيت آج بھي گوروں کي تيار کردہ ٹيکنيک پر ہورہي ہے اورتربيت کے دوران ہي ان لوگوں کے دماغوں ميں يہ خنّاس بھر ديا جاتا ہے کہ آپ عام پبلک سے سپر ہو اور سپر بن کر رہنا۔ اگر تم نے عام پبلک ميں گھل مل کر رہنے کي کوشش کي تو پھر تم ديوٹي اچھي طرح سے انجام نہيں دے سکو گے۔
ايک تيسري کلاس فوج ہے جس کے آفيسر آج بھي گوروں کے بناۓ ہوۓ طريقوں سے تربيت پا کر عملي زندگي ميں آتے ہيں اور وردي پہن کر اپنے آپ کو اپر کلاس سمجھنے لگتے ہيں۔ اسي تربيت کا نتيجہ ہے کہ آج جہاں جہاں بھي فوجي محکمے کا سربراہ ہے وہ وہاں کا آل ان آل ہے اور سارے سرکاري ملازم اور اس کے ماتحت اس کي آکڑ سے الرجک ہيں۔ فوجي کو پہلے دن سے ہي اردلي کي سروس دے کر بگاڑ ديا جاتا ہے اور وہ مرتے دم تک اپني گردن کا سريا ٹيڑھا نہيں ہونے ديتا۔
اس کے برعکس آپ ترقي يافتہ ملکوں کو ديکھيں اور آپ کو معلوم ہو گا کہ وہاں کي پوليس پبلک کي خادم ہوتي ہے اور ہر چھوٹے بڑے کي خدمت ميں پيش پيش ہوتي ہے۔ وہاں آپ کو پاکستان کي طرح تھانے جاتے ہوۓ ڈر نہيں لگے گا۔ مگر پاکستاں ميں تو انگريزوں کے دور سے يہ مثل مشہور ہے کہ گھوڑے کے پيچھے سے نہ گزرو اور تھانيدار کے آگے سے نہ گزرو۔
انہي ترقي يافتہ ملکوں ميں فوجي آپ کبھي کبھار ہي ديکھيں گے اور وہ بھي ايک عام آدمي کي طرح اپنےسارے کام خود ہي انجام دے رہا ہو گا۔ نہ اس کے پاس اردلي ہو گا اور نہ اس کي گردن ميں سريا۔
انہي تينوں کلاسوں نے قانون کو ہميشہ اپني باندي بنا کر رکھا ہے۔ زميندار اور جاگيردار تھانے خريد کر رکھتے ہيں اور افسروں کي ہر طرح کي خدمت پر معمور رنتے ہيں۔ سرکاري آفيسر کسي کو کچھ نہيں سمجھتے اور من ماني کرتے پھرتے ہيں۔ ہم نے اپني زندگي ميں کبھي سرکاري آفيسر کو کورٹ کے کٹہرے ميں نہيں ديکھا اور نہ کبھي حوالات ميں بند ديکھا ہے۔ کبھي کبھار اگر سرکاری آفيسر جرم کرتے پکڑا بھي جاۓ تو اس کا کيس چند دن بعد اندر ہي اندر ختم کرديا جاتا ہے۔
فوجي بھي اپنے آپ کو قانون کي گرفت سے مبرا سمجھتے ہيں اور تھانے ميں بھي حکم چلانا اپنا حق سمجھتے ہيں۔ پاکستان کي تاريخ ميں کبھي بھي کسي فوجي آفيسر کو سزا نہيں ہوئي يہاں تک کہ ہتھيار پھينکنے والے بھي اپني طبعي موت مرے اور اعزاز کے ساتھ دفناۓ گۓ۔
ثابت يہ ہوا کہ يہي تين کلاسيں ہيں جو اپنے اپنے مفادات کيلۓ ملک ميں قانون کي حکمراني قائم نہيں ہونے ديتيں۔ يہ لوگ تب ہي ٹھيک ہوں گے جب ان سے ہٹ کر کوئي حکومت کرے گا اور پھر ان سے سارے حساب کتاب لے گا۔
آئيں اب ہمارے اولذکر سوال کا جواب ڈھونڈنے کيلۓ آخري اور پانچويں کيوں کي بات کرتے ہيں۔ ہمارا آخري سوال يہ ہے۔
ان تين قسم کے لوگوں کے علاوہ کوئي آدمي حکومت کيوں نہيں بنا سکتا؟