ایکسپریس اخبار کی خبر پڑھئے اور یاہو نیوز کی خبر پڑھئے اور غور کیجیے، کیا ہم غلام اس فرق کی وجہ سے تو نہیں ہیں؟ دونوں خبروں میں فرق زمین آسمان کا ہے یعنی پاکستان میں بلدیہ کی کرپشن پکڑنے اور تفتیش کرنے والے جب خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں تو پھر انصاف کیسے کریں گے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں شاید ہی کسی بھی سطح کے حکمران کو کبھی سزا ہوئی ہو۔ سزا تو کبھی حزب اختلاف کو بھی نہیں ہوئی ہاں ان کا منہ بند کرنے کیلیے انہیں کچھ عرصہ جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

یاہو کی خبر کے مطابق ہمارے آقا امریکہ کے شہر ڈیٹرائٹ کا میئر آجکل زیر عتاب ہے۔ اس پر جھوٹ بولنے اور انصاف میں رکاوٹ ڈالنے پر مقدمہ بنا اور اسے مشروط طور پر ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ جب اس نے ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کی تو اسے جیل بھیج دیا گیا۔ اس سارے معاملے کو نمٹانے والے اس کے ماتحت کام کرنے والے پولیس والے ہیں جنہیں وہ فارغ بھی کر سکتا ہے مگر مجال ہے کسی پولیس کے دل ميں میئر کا ذرا برابر بھی خوف پیدا ہوا ہو۔۔

حالانکہ میئر نے آتے ہی جج سے معافی بھی مانگی اور پچھلے کئ ماہ سے مسائل کا شکار ہونے کا واسطہ بھی دیا مگر پتہ ہے جج نے کیا کہا۔ “میرے لیے اہم یہ ہے کہ اگر اس کرسی پر میئر کی جگہ کوئی عام شہری ہوتا تو میں کیا فیصلہ کرتا اور جواب سادہ سا ہے یعنی وہی کرتا جو میں نے آج کیا ہے”۔

ایک ہم ہیں کہ حکمران بنتے ہی ججوں تک کو اپنا غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ وہ حکمران کا ہی محاسبہ کرنے لگے ہیں تو انہیں فارغ بھی کر دیتے ہیں  اور پھر کہتے ہیں ہم نے جو کچھ کیا ملکی مفاد میں کیا۔

ہم لوگ تب تک غلام ہی رہیں گے جب تک ہم حکمرانوں کو عدالتی کٹہرے میں کھڑے کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔