دو روز سے خبروں ميں آرہا ہے کہ کراچي يونيورسٹي کے اساتزہ نے ہڑتال کر رکھي ہے اور اس وجہ سے کئ امتحانات بھي ملتوی ہو چکے ہيں۔ اس ہڑتال کي وجہ طالبعلموں کي اپنے ايک استاد کي پٹائي ہے۔ کہتے ہيں کہ استاد نے طالبعلم کو اس کي غيرحاضريوں کي وجہ سے امتحان ميں بٹھانے سے امکار کر ديا اور طالبعلم نے اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر استادِ محترم کي دھنائي کردي۔ تب سے انتظاميہ نے اس کيس پر غور کرنا شروع کيا اور آج طالبعلم کو عارضي طور پر دو سال کيلۓ يونيورسٹي سے خارج کر ديا ہے۔ انتظاميہ کا موقف يہ ہے کہ وہ اب تک عدالتي کاروائي کا انتطار کرتي رہي اسلۓ اس نے کوئي ايکشن نہ ليا۔ اساتزہ کي بھي زد ہے کہ وہ بائيکاٹ جاري رکھيں گے جب تک طالبعلم کو يونيورسٹي سے خارج نہيں کر ديا جاتا۔
سوچنے والي بات يہ ہے کہ انتظاميہ نے ايک استاد کي زبان پر کيوں اعتبار نہيں کيا اور ابھي تک کيوں اس بات کي تصديق چاہتي ہے کہ کيا واقعي طالبعلم نے استاد کو مارا ہے۔کيااستاد کي آنکھوں پر پٹي بندھي ہوئي تھي جب اس کو مارا گيا يا اس کو اندھيرے ميں مارا گيا۔ اگر استاد نے خود اپني آنکھوں سے ان طالبعلوں کو مارتے ہوۓ ديکھا ہے تو پھر کسي اور شہادت کي ضرورت نہيں ہے۔
سارےاساتزديہ بھي کہ رہے ہيں کہ طالبعلم کا تعلق ايک مخصوص گروہ يا جماعت سے ہے اور اس کے آدمي اساتزہ کو دہمکياں بھي دے چکے ہيں کہ اگر بات کرني ہے تو ہمارے گورنر سے کرو يا اس کے نمائيندے سے۔
اے لاعلم انتطاميہ تو کيوں استاد کي زبان پر اعتبار نہيں کرتي اور کيوں اس کي شہادت پر ان طالبعلموں کے خلاف کاروائي کرنے سے احتراز کر رہي ہے جنہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ ميں ليا۔ لگتا ہے يونيورسٹي کي انتظاميہ کو معلوم ہے کہ پٹائي کرنے والے طالبعلموں کا تعلق ايک جماعت سے ہے جس کا کارکن سندھ کا گورنر ہے اسلۓ وہ ان طالبعلوں کے خلاف کاروائي کرنے سے ہچکچا رہي ہے۔
يہ استاد چونکہ صرف ايک معمولي سا شہري ہے جس کي کوئي سفارش نہيں ہے اسلۓ کوئي کاروئي نہيں کي جارہي۔ اگر يہي استاد فوجي ميجر يا کرنل بھي ہوتا تو اب تک خفيہ والے مجرموں کو ايسے غائب کرتے جيسے انہوں نے ايک حساس ادارے کے انجينئرزکو غائب کيا ہوا ہے۔ اب تو وقت ايسا ہے کہ انصاف کيلۓ يا تو فوجي ہونا لازمي ہے يا پھر امريکہ کي سفارش ۔ اس کے علاوہ سب کوششيں بے کار ہيں۔
پتہ نہيں ہمارے سياسي رہنما، قومي اسمبلي اور سينٹ کے ارکان ان واقعات کا نوٹس کيوں نہيں ليتے۔ يہي واقعات ہیں جو حکومتوں کو قوانيں ميں تبديلي پر مجبور کرديتے ہيں مگر يہاں تو قانون ميں تبديلي ہوتي ہے تو صرف تنخواہيں بڑہانے کيلۓ يا پھر اپني کرسي پکي کرنے کيلۓ۔ حکومتي نمائيندوں کو اس سے کوئي سروکار نہيں کہ عوام کو انصاف مل رہا ہے کہ نہيں۔