پاکستان کے یوم آزادی کی تقریبات میں اس دفعہ عجیب روایت ڈالی گئی۔ بی بی سی کے مطابق صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے الگ الگ تقریبات کا انعقاد کیا اور دونوں نے ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت بھی نہیں کی۔ صدر پاکستان جنرل مشرف کی دونوں تقاریب میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی نے شرکت کرنے کی بجائے وزیراعظم کی تقریب میں شرکت کی۔ اسی طرح جنرل مشرف کی تقریب میں کوئی پارلیمانی وزیر بھی شریک نہیں ہوا۔ ہاں آرمی کے کچھ جنرل ضرور ایوان صدارت کی تقریب میں شریک ہوئے یعنی آرمی نے نیوٹرل رہنا مناسب سمجھا۔

جنرل مشرف تیرہ اور چودہ اکتوبر کی شب منعقد ہونے والی تقریب میں سگار سلگا کر اور پان چبا کر اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ تقریب یوم آزادی کی بجائے ان کی الوداعی تقریب زیادہ لگ رہی تھی۔ صدر مشرف کے تمام پرانے رفقا وہاں موجودہ تھے۔ محفل خوشی کی ہونے کے باوجود تھکی تھکی سی لگی جہاں صدر مشرف سمیت کم ہی لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کو ملی۔ صدر مشرف نے تقریر بھی انتہائی سنجیدگی سے کی اور پی ٹی وی کے کارکنوں کا شکریہ وہ اس طرح ادا کر رہے تھے جیسے کسی سنجیدہ مسئلے پر بحث کر رہے ہوں۔

اس سے پہلے وفاقی  اور صوبائی حکومتوں کی آپس میں چپقلش دیکھی جاتی رہی ہے مگر ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ہماری حکومت صدارتی اور پارلیمانی دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے اور اس طرح ایک ملک میں دو متوازی حکومتوں کا معجزہ بھی پاکستان میں رونما ہوا ہے۔

جنرل مشرف کی اب بھی کوشش ہے کہ وہ آرمی کی حمایت سے محروم نہ ہوں اسی لیے انہوں نے آرمی اور قوم کی مضبوطی کی بات کی ہے جبکہ وزیراعظم نے حکومت اور عوام کو متحد رکھنے کی بات کی۔

اب لگتا تو یہی ہے کہ صدارتی اور پارلیمانی اداروں میں جنگ کا طبل بچ چکا ہے اور کسی بھی وقت کسی ایک کی شکست کی صورت میں ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بن سکتا ہے۔

جب ملک کے چاروں صوبوں کی اسمبلیاں صدر کیخلاف قرار داد منظور کرلیں تو پھر صدر کو کرسی چھوڑ دینی چاہیے۔ چاہے مواخذے کیلیے چارج شیٹ غلط بھی ہو تب بھی جنرل مشرف کو اب گھر چلے جانا چاہیے کیونکہ ملک کا صدر بھی عوام اور پارلیمان کا نمائندہ ہونا چاہیے ناں کہ حزب اختلاف کا۔