بينظير بھٹو نے انتخابات سے قبل ملک واپسي کا عنديہ دے کر ايک بار پھر ہلچل مچانے کي کوشش کي ہے۔ ابھي انتخابات ميں دو سال باقي ہيں اور اتني جلدي اس بيان کا کيا مقصد ہےيہ اپني سوچ سے باہر ہے۔
ہمارے سياستدان ابھي اتنے بہادر نہيں ہوۓ کہ وہ اپنے ملک کي خاطر اپني جان کو خطرے ميں ڈاليں۔ بينظير اگر چاہتيں تو ملک میں رہ کر سياست کرسکتي تھيں مگر اسکيلۓ انہيں جيل ميں رہنا پڑتا اور يہ ان کو قبول نہيں تھا۔ زرداري نے آٹھ سال سے زيادہ جيل ميں کاٹے اور ضمير کے قيدي کا اعزاز حاصل کيا مگر وہ بھي اس سے پھر تنگ آگۓ اور موقع ملتے ہي ايسے ملک سے بھاگے کہ اب ان کي کوئي خبر ہي نہيں کہ وہ کہاں ہيں۔ ملک چھوڑنے سے پہلے انہوں نے ملکي سياست ميں ہل چل مچانے کي کوشش کي مگر جب ديکھا کہ يہ کام ان کے بس کا نہيں تو انہوں نے آسان راہ اپنائي اور ملک چھوڑ ديا۔ اب وہ بھي اس انتظارميں ہيں کہ کب ميدان صاف ہو اور وہ اپنے جوہر دکھائيں۔
مياں برادران نے جب ديکھا کہ لمبي جيل ان کيلۓ يقيني ہے تو انہوں ايک لمحہ بھي ضائع نہيں کيا اور اپنے دشمن سے ڈیل کرکے باہر چلے گۓ اور اسطرح فوجي حکومت سے جان کي امان پائي۔
ايم کيو ايم کے الطاف حسين حالانکہ حکومت ميں شامل ہيں اور پھر بھي پاکستان واپس آنے سے ڈر رہے ہيں۔ اگر ان کي حکومت ہوتے ہوۓ ان کي جان پاکستان ميں محفوظ نہيں تو پھر بينظير اور نواز شريف حق بجانب ہيںکہ ملک سے باہر رہ کر اپني جان بچائيں۔
جو لوگ اس وقت حکومت ميں ہيں وہ بھي ڈرپوک ہيں اور صرف اپنے گھر ميں شیر ہيں۔ ذرا حکومت بدلي نہيں تو يہ دم دبا کر ملک سے باہر بھاگے نہيں۔ اور جو شیر بن کر ملک ميں رہ بھي گۓ ان کو جيل کے دروازے کھلے مليں گے۔
سابقہ حکومتوں نے نيب کا ادارہ حزبِ اختلاف کيلۓ بنا کر ايسي روائت قائم کي ہے جو ابھي تک قائم ہے اور اس کے ختم ہونے کے کوئي امکانات نہيں۔ جو بھي حکومت اقتدار ميں آئي وہ وہي کرے گي جو يہ حکومت کر رہي ہے۔ يعني نيب کا ڈر دکھا کر حزب اختلاف کے ارکان کو توڑنا اور جو نہ ڈريں ان کو اندر کرنا۔ ہمارے ہاں کھري اور سچي حکومت تب ہي آۓ گي جب کبھي نيب نے حکومتي ارکان کے خلاف کاروائي کي۔ اس دن کا انتظار ہے جب ہمارے ملک کے حکمران بھي حکومت ميں رہ کر عدالتوں کے آگے جواب دہ ہوں گے۔