آج ایک پاکستانی کمیونٹی کے مزدور لیڑر نے تیس چالیس لوگوں کو بار بی کیو پر بلایا تھا۔ موسم اچھا تھا اور سب لوگوں نے کھلی فضا میں بیٹھ کر خوب مزے لوٹے۔

امریکہ اور پاکستان کی صدارتی مہمات ہمارے سامنے ہیں اور کینیڈا میں قومی انتخابات کا اعلان شاید اگلے ہفتے ہونے والا ہے۔ اس پارٹی میں دو مزدور یونین کے لیڈر اور ایم این اے کو بھی بلایا گیا تھا۔ میزبان نے سب کو قومی یکجہتی کے موضوع پر بولنے کی دعوت دی۔ کینیڈین پاکستانی ایسوسی ایشن آف سائینٹسٹ ایند انجنیئرز، اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ، مزدور یونین کے صدر اور آخر میں ایم این اے نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایم این اے کو اپنے لیے ووٹ مانگنے کی دوبارہ دعوت دی گئی اور اس نے کئِ اہم مسائل پر بات کی۔ ان مسائل میں امیگرینٹس کے رشتے داروں کو کینیڈا کے وزٹ کی اجازت کا پروگرام، ترقی کیلیے جاری حکومتی پروجیکٹ کیلیے لوگوں کے گھروں اور زمینوں پر ناجائز قبضے، اضافی بجٹ کا لوگوں کی فلاح کیلیے خرچ نہ کرنا، فری ٹریڈ میں مقامی صنعت کا نقصان جیسے نازک موضوعات پر اس نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور اپنے لیے ووٹ کی درخواست کی۔

ایم این اے اپنی پرانی گاڑی میں اکیلا ہی آیا اور اکیلا ہی چلا گیا۔ اس نے بتایا کہ پہلی انتخابی مہم پر اس نے اپنے گھر کی چیزیں بیچ کر اخراجات کیے۔ وہ تنخواہ دار پبلک نمائندہ ہے جو دس سال سے وہیں کا وہیں ہے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔ وہی چھوٹا سا گھر، بیوی ملازمت کرتی ہے اور بچے پبلک سکول جاتے ہیں۔ دارلحکومت وہ صرف پارلیمنٹ کے اجلاس کیلیے جاتا ہے باقی وقت وہ اپنے شہر میں گزارتا ہے۔ ہر چھوٹِ بڑی کمیونٹی کی میٹنگوں میں حاضری دے کر وہ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر چکا ہے۔

اس انتخاب میں وہ کچھ فری کام کرنے والے کارکنوں کی مدد لے گا، انتخابی مہم کیلیے چندہ اکٹھا کرے گا، لوگوں کے گھروں کے لان میں اپنا بورڈ آویزاں کرے گا اور چھوٹی چھوٹی میٹنگوں بمعہ مسلمانوں کی جمعہ کی نماز کے وقت یا پھر مغرب کی نماز کے وقت اپنے لیے ووٹ مانگے گا اور اس طرح اس کی انتخابی مہم مکمل ہو جائے گی۔ نہ ٹریفک بلاک ہو گی، نہ لاکھوں بڑِی بڑِی دعوتوں پر خرچ کرے گا اور نہ دولت جمع کرنے کی فکر کرے گا۔

اس نے سب کو کھلی دعوت دی اپنے مسائل اس کےساتھ زیربحث لانے کی۔ آپ اسے ایک فون کرکے اسے ملنے جا سکتے ہیں اور وہ آپ کی ہر طرح سے مدد کرنے کیلیے تیار ملے گا۔  وہ واقعی پبلک کا نمائندہ ہے اور اس میں تکبر غرور نام کی چیز بالکل نہیں ہے اور شاید یہی یورپ کی ترقی کا راز ہے۔