پہلے تو آصف زرداری کو صدر منتخب ہونے پر مبارک باد اور دعا کہ وہ جو بھِی اقدامات اٹھائیں پاکستان کی بھلائی ان میں ہو۔ وہ صرف روایت کے طور پر چین کا پہلا دورہ نہ کریں بلکہ ملک کو معاشی مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلیے چین جیسے مخلص دوست سے مدد مانگیں اور اپنی خارجہ پالیسی میں چین کو اہم کردار سونپیں۔

ویسے اب تک کے حالات کی بنا پر یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ آصف زرداری کا انتخاب طے شدہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی بڑی خوبصورتی سے کی گئی تھی۔ اس دفعہ بیرونی جمہوری طاقتوں کے سفیروں نے سرعام مداخلت نہیں کی۔ نواز شریف کو بھی کہیں سے شاید بہت سخت پیغام موصول ہو چکا ہو گا۔ اسی لیے انہوں نے اس مقابلے کو سنجیدہ نہیں لیا اور جوڑ توڑ میں گرمجوشی نہیں دکھائی جو سیاست کا حصہ ہوتی ہے۔

ایک سے زیادہ پارٹیوں نے بھی سارے انڈے ایک ہی گھونسلے میں ڈال کر ہمیں تو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔ ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی، پیر پگاڑا، فاٹا اور مسلم لیگ ق کے فارورڈ بلاک کا آصف زرداری کو ووٹ کیلیے راضی کرنا پی پی پی کی بہت بڑی سیاسی فتح ہے۔ اس سیاسی فتح کیلیے جو جوڑ توڑ اور وعدے وعید ہوئے ان کی وعدہ خلافی کے زخم بعد میں جب ان پارٹیوں کو سہنے پڑے تو پھر وہ پچھتائیں گی مگر فی الحال تو آصف زرداری نے اپنا الو سیدھا کرلیا ہے اور وہ ایجنڈا جسے جنرل مشرف مکمل کرنا چاہتے تھے اب مکمل ہو گیا ہے۔

اب ملک کے سیاسی اور ادبی حلقوں میں اس بات پر بحث شروع ہو چکی ہے کہ اس کے بعد کیا پنجاب اور مرکز میں دوبارہ محاذ آرائی شروع ہو جائے گی یا نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ جب تک بیرونی جمہوری طاقتوں کے مفادات پورے ہوتے رہے پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت قائم رہے گی اور اسے بیک اپ اور پریشر کے طور پر بیرونی جمہوری طاقتیں استعمال کر کے آصف زرداری سے کام نکلواتی رہیں گی۔ جو نہی آصف زرداری یا نواز شریف بیرونی جمہوری طاقتوں کیلیے خطرہ بننے لگے ان کی حکومت کو گرانے کی کوششیں شروع کر دی جائیں گی۔

آصف زرداری کے ایوان صدارت میں پہلے نوے دن اہم ہوں گے۔ اگر انہوں نے ان نوے دنوں میں سترہویں ترمیم ختم کر دی، شمالی علاقوں میں جنگ بند کر دی، بیرونی جمہوری طاقتوں کے حملے بند کرا دیے اور ملک کی معاشی حالت سدھارنے کیلیے سنجیدہ کوششیں کیں تو پھر ہم سمجھیں گے کہ وہ بیرونی جمہوری طاقتوں کو بھی نواز شریف کی طرح چکما دے گئے وگرنہ دوسری صورت میں ہم انہیں جنرل مشرف کا جانشیں سمجھیں گے۔