جس دن دھماکا ہوا اس دن کاشف کے پروگرام میں پی پی پی کے ایک لیڈر جنرل بابر نے جب یہ کہا کہ شکر ہے میریٹ کے دھماکے میں کوئی اعلی شخصیت ہلاک یا زخمی نہیں ہوئی، تو کاشف کو پوچھنا پڑا کہ جو عام پاکستانی شہید ہوئے ان کا آپ کو کوئی غم نہیں ہے۔ اس کے جواب میں لیڈر کو کہنا پڑا کہ انہیں ان کا بھی افسوس ہے۔

ہوٹل کی سیکیورٹی اس قدر ناقص تھی کہ سیکیورٹی گارڈ دہشت گرد کے دھماکے کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے رہے اور کوئی فائر الارم نہیں بجایا۔ تین منٹ کا وقت بہت زیادہ ہوتا ہے ہوٹل سے باہر نکل کرمحفوظ جگہ پر پناہ لینے کیلیے۔ دہماکے کی ویڈیو سے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ سیکیورٹی والے دو تین دفعہ ٹرک سے دور بھاگ کر کہاں جاتے رہے۔

دہشت گردی سے سیاسی فائدہ اٹھانے کیلیے کل مشیرداخلہ رحمان ملک نے یہ بیان داغ دیا کہ وزیراعظم کی بکنگ اس ہوٹل میں تھی اور بعد میں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اسے وزیراعظم ہاؤس منتقل کر دیا گیا۔ آج میریٹ کے مالک ہاشوانی نے بی بی سی کو بیان دیا ہے کہ ان کے ہوٹل میں ایسی کوئی بکنگ تھی ہی نہیں اور نہ ہی ان کے ہوٹل میں نو سو آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ رحمان صاحب اس سے قبل بھی کئی دفعہ اپنی حماقتوں کی وجہ سے سبکی اٹھا چکے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ جھوٹ تو ایسا بولا کریں جس کا چند دن بھرم رہ جایا کرے۔

اجمل صاحب نے اپنے بلاگ پر جنگ کے انصار عباسی کی خبر کا جو حوالہ دیا ہے اس تھیوری کو میڈیا نے پس پشت ڈال دیا ہے اور میڈیا پر کسی نے اس بارے میں اپنی زبان تک نہیں کھولی۔ لگتا ہے سب کو اس بارے میں خاموش رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

ایک بات کی اور سمجھ نہیں آتی کہ بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات کی کوئی گروپ ذمہ داری نہیں لیتا بلکہ اکثر اس کی تردید کرتے ہیں۔ اگر طالبان ایسے واقعات میں ملوث ہیں تو پھر انہیں فلسطینیوں کی طرح ان کا کریڈٹ لینا چاہیے۔ اس خاموشی سے بھی کئی شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔