حکومت نے کل سے گيس کي قيمتيں نو سے پندرہ فيصد بڑھا دي ہيں۔ ابھي حزبِ اختلاف پٹرول کي قيمتوں کو کم کرنے کيلۓ شور مچا رہي تھي کہ گيس کي قيمتيں بڑھ گئيں۔ اسے کہتے ہيں جوانمردي۔ نہ کسي کا ڈر نہ خطرہ۔ حکومت کو معلوم ہے کہ حزبِ اختلاف بے جان ہے اور قوم سوئي ہوئي ہے اسلۓ جو کرنا ہے کر لو۔ ہميں تو يہاں تک يقين ہے کہ اگر حکومت کالاباغ ڈيم کا اعلان بھي کردے تو اس کا کوئي کچھ نہيں بگاڑ سکے گا۔

دوسرا تحفہ حکومت نے اپنے اسمبلي ارکان کي تنخواہيں بڑھا کر انہيں ديا ہے نہ کہ قوم کو۔ بھلا اس مہنگائي کے دور ميں تنخواہ ميں اضافے کي کس کو ضرورت نہيں۔ ليکن لگتا ہے کہ وڈيروں اور جاگيرداروں کو عوام کي نسبت مہنگائي نے کچھ زيادہ پريشان کر رکھا ہے اسي ليۓ عام سرکاري ملازم کي بجاۓ امير ارکان کي تنخواہيں بڑہائي گئي ہيں۔

حکومت جانتي ہے کہ سوئي ہوئي قوم صرف نيا سال منانے کيلۓ آدھي رات کو جاگتي ہے مگر مدہوشي کے عالم ميں۔ اس دفعہ بھي ملک کے ہر بڑے شہر ميں نۓ سال کي خوشي ميں خوب شباب و شراب کي محفليں جميں۔ اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ حکومتي ارکان ميں سے کون کون اس خوشي ميں شامل ہوا۔ کہتے ہيں بڑي بڑي اہم شخصيات نے جام لٹاۓ اور شہر بھي کي ماڈل گرلز ان کيلۓ اکٹھي کي گئيں تھيں۔ نہ کسي کو زلزلے کا غم ستايا اور نہ مہنگائي کا۔ مگر يہ خوشيان ان لوگوں کو راس آئيں جو امير اور افسر ہيں۔ ان خوشيوں ميں ہميں نہيں لگتا کسي نے غريبوں کو بھي ياد رکھا ہو۔ غريب تو رات ہوتے ہي تھکے ماندے بستر پر جا پڑے ہوں گے اور صبح اٹھ کر انہيں پتہ چلا ہو گا کہ آج نۓ سال کا پہلا دن ہے۔