بی بی سی کیمطابق انڈیا نے پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندی یورپ میں کافی عرصے سے لاگو ہے اور اس کا جواز یہی ہے کہ سیکنڈ ہینڈ سموکنگ کے اثرات بھی بہت برے ہوتے ہیں۔ ہم جب پاکستان میں رہتے تھے تو سگریٹ نوش دوستوں کی محفل میں بیٹھنا برا نہیں لگتا تھا پھر جب سگریٹ کے دھوئیں سے پاک ماحول میں کئی برس گزار کر پاکستان واپس گئے تو بلا اجازت محفل میں سگریٹ پینے والے ہمیں زہر لگنے لگے اور ہمیں کئی بار اپنے دوستوں کو سگریٹ بجھانے کی درخواست کرنا پڑی۔

اس رمضان کے دوران تراویح کے بعد مسجد کے باہر سگریٹ پینے والوں پر ہمیں بہت غصہ آتا رہا کیونکہ ان کے دھوئیں سے ساری پارکنگ لاٹ آلودہ ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ جب ہم نے ایک صاحب سے درخواست کی کہ خدارا جب تک آپ اس محفل میں کھڑے ہیں سگریٹ مت پیجئے۔ انہوں نے محفل کو چھوڑنا گوارا کر لیا مگر سگریٹ دور ہٹ کر ضرور پیا۔

اللہ کرے کبھی پاکستانی حکومت بھی 2002 کے سگریٹ نوشی کے آرڈینینس پر عمل درآمد کرانا شروع کر دے۔ کیونکہ بسوں، ٹرینوں اور عام محفلوں میں سگریٹ پینے والے ماحول کو دھواں دھواں کر کے دوسروں کی بیماری کا بھی سبب بنتے ہیں۔

سگریٹ نوشی مضر صحت ہے یہ سب جانتے ہیں مگر سگریٹ نوشی تبھی ترک کرتے ہیں جب ڈاکٹر انہیں آخری وارننگ دیتا ہے۔ ہمارے کئی عزیز جو چین سموکر تھے اب آخری عمر میں جب دمے کے مریض ہونے لگے تو انہوں نے ڈاکٹر کے کہنے پر سگریٹ نوشی ترک کی۔

ہمارے خیال میں سگریٹ نوشی پر پابندی کیساتھ ساتھ سگریٹ کے اشتہارات پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے۔ یورپ میں کم از کم کھیلوں کی نشریات کے دوران سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی لگ چکی ہے۔ مگر ابھی تک مکمل پابندی اس لیے نہیں لگ سکی کیونکہ تمباکو کی فروخت سے حکومت کو بہت بڑی آمدنی ہوتی ہے اور حکومت یہ آمدنی ختم نہیں کرنا چاہتی حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اس آمدنی کا بہت بڑا حصہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے بیمار ہونے والے مریضوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔

سگریٹ انڈسٹری کی لابی بھی بہت مضبوط ہوتی ہے اور کہتے ہیں انتخابات میں یہ صنعت پہلے یا دوسرے نمبر پر امیدواروں کے فنڈ میں رقم جمع کراتی ہے۔ ان کی لابی امریکی کانگریس اور سینٹ میں بہت مضبوط ہے جو کسی ایسے بل کو مشکل سے ہی پاس ہونے دیتی ہے جس سے اس کی سیل کم ہونے کا اندیشہ ہو۔

پڑھا لکھا یورپ اس لحاظ سے غیرترقی یافتہ ملکوں کی طرح اب بھی جاہل ہے کیونکہ وہ بھی یہ زہر وارننگ کیساتھ فروخت کرتا ہے۔ تمباکو ایک ایسا زہر ہے جو جان بوجھ کر عوام کی رگوں میں ڈالا جاتا ہے اور حکومتیں اس سے کمائی کرتی ہیں۔