پچھلے چند ہفتوں سے سپریم کورٹ کافی متحرک ہوگئی ہے اور اس نے دو کام بہت اچھے کۓہیں۔

پہلے سپریم کورٹ نے پتنگ بازی کا کیس کھولا اور پتنگ بازی پر پہلی فرصت میں ہی پابندی عائد کردی۔ یہ پابندی بے شک عارضی ہے مگر کم از کم یہ پابندی اب تک کئی جانیں بچانے کا سبب بنی ہے۔ امید ہے سپریم کورٹ پتنگ بازی کا کوئی مستقل حل نکال کر غریوں کی دعائیں ضرور لے گی۔ جیسا کہ ہم پہلے تجویز دے چکے ہیں کہ پتنگ بازی کی اجازت صرف اور صرف کھلے میدان میں دی جاۓ اور شہروں میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کردی جاۓ۔

دوسرا کیس جو سپریم کورٹ کے سامنے ہے وہ شادیوں پر ون ڈش کھانے کی پابندی ہے۔ اب تک حکومت کے کرتا دھرتا اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے آۓ ہیں جس کی وجہ سے غرییوں کیلۓ اپنے بچوں کی شادیاں سادگی سے کرنا اور مشکل ہو چکا ہے۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حکومت کا وزیر حیدرآباد کے سٹيڈیم میں شادی پر ہزاروں مہمانوں کو کھانا کھلاۓ۔ اور اس پر طرہ یہ کہ حکومت کے پڑھے لکھے وزیرِاعظم بھی کوئی ایکشں نہ لیں اور صدر صاحب بھی اس وزیر کی خبر نہ لیں۔ اب سپریم کورٹ نے ان کو کورٹ میں بلا کر ایک نئ روائت ڈالی ہے اور حکومت سے امید ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو انصاف کرنے دے گی اوراس کے راستے کا کانٹا نہیں بنے گی۔

 اسی طرح سرحد کے وزیرِ قانون کے بھائی نے اپنے بچے کی شادی پر بہت بڑا کھانا دیا۔ وزیر صاحب چہ جائیکہ اس پر شرمندہ ہوتے انہوں نے ڈھٹائی سے جواب دیا کہ ان کے علاقے کا رواج اور ہے۔ یہ تو بھلا ہو چیف جسٹس کا جنہوں نے یہ کہ کر وزیر کو لا جواب کردیا کہ کیا ان کا علاقہ پاکستان کی حدود سے باہر ہے۔ پھر جب ان کو شادی کا کارڈ دکھایا گیا جس پر میزبانوں کی فہرست میں ان کا نام لکھا ہوا تھا تو ان کا جواب یہ تھا کہ کارڈ پر ان کا نام ان کی مرضی کے بغیر لکھا گیا ہے۔ اب کوئی بے وقوف ہی اس بات پر یقین کرے گا کہ کسی کے بھتیجے کی شادی پر اس کا نام بناں مشورے سے لکھ دیا گیا۔ پھر جب انہوں نے اس شادی میں شرکت کی تو اپنے بھائی کو قانون کی خلاف ورزی پر روکا تک نہیں۔

ہماری اپنے عوام سے یہ استدعا ہے کہ کم از کم ان دو صاحبان کو تو اگلے انتخابات میں ووٹ نہ دے کر شکست سے دوچار کریں گے۔