ملک کی تاریخ میں انتہائی اہم موڑ پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے جس میں پاکستان کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی جا رہی ہے۔ اس کے بعد اس بریفنگ پر بحث ہو گی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جو کچھ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بریفنگ دی جائے گی وہ پہلے سے وزیراعظم، صدر اور چیف آف سٹاف کی آپس کی ملاقاتوں میں طے ہو چکا ہے اور اس بارے میں احکامات بھی مل چکے ہیں۔ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا خانہ پری سے زیادہ کچھ نہیں۔ جن کو حقیقت میں اعتماد میں لینا تھا ان سے یعنی اسفندیار ولی سے ان تینوں صاحبان نے پہلے ہی بات کر لی ہے۔ اسفندیار ولی کو اعتماد میں لینا اس لیے ضروری تھا تا کہ وہ پٹھانوں کیخلاف ہونے والے آپریشن میں روڑے نہ اٹکا سکیں اور اپنے ہی لوگوں کو مرتا دیکھ کر کہیں پگھل نہ جائیں۔

اس کے علاوہ اس اجلاس سے پہلے امریکی سفیر نے بھی مشیرداخلہ سے ملاقات کی ہے اور اس میں بھی ڈکٹیٹشن مل گئی ہو گی کہ کونسی بریفنگ گونگے بہرے پارلیمنٹیرینز کو دینی ہے اور کس طرح نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کی حمایت حاصل کرنے کے بعد ان کی زبانیں بند کرنی ہیں۔

ادھر پارلینمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا تھا اور ادھر ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ سنا ہے قبائلیوں نے ان جاسوسی طیاروں پر بمباری کی۔ ان کی گولیاں تو طیاروں تک نہیں پہنچی ہوں گی مگر انہوں نے اپنے دلوں کی بھڑاس تو نکال ہی لی۔

عمران خان، قاضی حسین احمد اور اے پی ڈی ایم کے دوسرے رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت نہ کر کے غلطی کی ہے۔ کم از کم انہیں ضرور دیکھنا چاہیے تھا کہ کس طرح ہم لوگوں کو ہماری ہی فوج اپنی بے بسی کی داستان سناتی ہے اور کس طرح ہم اپنے ہی لوگوں کو مارنے کے بدلے بیرونی امداد حاصل کرتے ہیں۔

ہو سکتا ہے اے پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے اس اجلاس میں اس لیے شرکت نہ کی ہو کہ سب سے اس اجلاس کے بارے میں کوئی بھی بات نہ کرنے کا حلف لیا جانا ہو۔ اور جب اے پی ڈی ایم والے اس اجلاس کے بارے میں عوام کے سامنے بات نہیں کر سکیں گے تو پھر کل کے سارے ایکشن ان کی جھولی میں ڈال دیے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ ہم نے ان لوگوں کو اعتماد میں لیا تھا۔

اے خدا کب تو ہمیں مخلص اور محب وطن لیڈر عطا کرے گا۔ کب تو ہمیں ایسے حکمران عنایت فرمائے گا جو اپنے جان و مال کی پرواہ کئے بغیر ملک کیلیے سر دھڑ کی بازی لگانے کو ہر وقت تیار ہوں گے۔