يہ ١٩٧٠ کے عشرے کي بات ہے جب منظور شاہ جوان تھا اور بدمعاشي کے زور پر سياست ميں اپنے قدم جمانے کي کوشش کررہا تھا۔ اس سےپہلے ايک بار لوکل باڈيز کا اليکشن بھي لڑچکا تھا۔ جب اس نے ديکھا کہ علاقے ميں چوہدريوں کا زور ہے تو اس نے ايک ايک کرکے ان کو راستے سے ہٹانے کا پلان بنايا۔ سب سے پہلے خواص پور گاؤں کے چوہدري نواب دين کو ہٹانے کا منصوبہ بنايا۔ اس کا ايک ٹانگہ بان شہر ميں چارہ بيچنے کي دکان بھي چلاتا تھا۔ چوہدري اسي بازار سے گزر کر کچہري کام کے سلسلے ميں جايا کرتا تھا۔ اس دن منظور شاہ کے غنڈے چارے والي دکان ميں گھات لگا کر بيٹھ گۓ۔ جونہي چوہدري کي کار نظر آئي ان ميں سے ايک نے ٹانگہ آگے کرکے سڑک بند کردي۔ جونہي چوہدري کي کار نے بريک لگائي منظور شاہ کے غنڈے باہر نکلے اور انہوں نے چوہردي پر گولي چلا دي۔ گولي مارنے کے بعد سارےغنڈے گھوڑوں پر فرار ہوگۓ اور پھر کبھي نہ پکڑے گۓ۔ منظور شاہ نےاپنے آپ کو مقدمے سے بچانے کيلۓ اس دن کي حاضري تھانے ميں لگوائي۔
اس کے بعد منظور شاہ نے چوہدري ولائت کو نشانہ بنايا۔ چوہدري ولائت پيدل برساتي نالہ پار کيا کرتا تھا۔ ايک دن منظور شاہ کے غنڈوں نے اسے برساتي نالے ميں ہي قتل کرديا اور اس کے قاتلوں کا بھي سراغ نہ ملا۔
ان دو بڑے لوکل ليڈروں کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد منظور شاہ شہر کا غنڈہ ليڈر بن گيا اور بڑے بڑے کاروباري لوگوں سے اپني بدمعاشي کے زور پر دولت سميٹنے لگا۔ شہر ميں اگر کسي کا بيٹا آوارہ ہو جاتا تو اس کے والديں اس کو منظور شاہ کے پاس لے جاتے اور منظور شاہ اس کي دھنائي کے ساتھ ساتھ اس کي ٹنڈ کرا گھر بھيج ديتا۔ اگر کسي کي گھريلو ناچاقي ہو جاتي تو وہ آدمي کوڈرا دھمکا کر صلح کرنے پر مجبور کرديتا۔ اس نے اپنے ايک دوست کے ساتھ ملکر ڈار گڈز کے نام سے ٹرانسپورٹ کا کاروبار کھولا جو دوست کے مرنے کے بعد سارے کا سارا ہڑپ کرليا۔
پھر منظور شاہ نے ايم اين اے کا اليکشن اپني بدمعاشي کے زور پر نواز ليگ کے ٹکٹ پر لڑا اور جيت گيا۔ اس کے بعد اس نے ارد گرد کي سرکاري املاک پر قبضہ کرنا شروع کرديا۔ اگلے اليکشن ميں وہ پي پي پي سے ہار گيا مگر دو سال بعد ہونے والے انتخابات ميں پھر نواز ليگ کے ٹکٹ پر جيت گيا۔ اس عرصے ميں اس نے گورنمنٹ کا ايک قطعہ اراضي نيلامي ميں دوسرے کاروباري لوگوں سے ملکر خريدا مگر بعد ميں کسي کو اس کا حصہ نہ ديا۔
اسي عرصے ميں ايک اور بدمعاش ميدان ميں اترا جس کا نام چوہدري اسلم تھا۔ منظور شاہ نے اس کو بہت سمجھانے کي کوشش کي مگر اس نے بدمعاشي نہ چھوڑي۔ وہ سات فٹ کا جوان جب اپنے غنڈوں کے ساتھ بازار سے گزرا کرتا تو سارے دکاندار سہم کر رہ جاتے۔ جب منظور شاہ نے ديکھا کہ وہ اس کيلۓ خطرہ ننتا جارہا ہے تو اس نے چوہدري اسلم کو بھرے بازار ميں قتل کراديا۔جب چوہدري اسلم قتل ہو منطور شاہ ہسپتال ميں داخل تھا۔ اس کے قاتل بھي آج تک پکڑے نہيں گۓ۔
اسي دوران اس کا اکلوتا بيٹا جوان ہوچکا تھا۔ منظور شاہ نے بہت کوشش کي کہ وہ بھي اس کيطرح سياست کي چاليں چل کر زندگي کي راہوں پر چلے مگر وہ نادان جوان خون تھا سب کچھ ايک دم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے باپ کے نام پر بدمعاشي ميں قدم رکھا اور لوگوں کا جينا حرام کرديا۔ ايک باراس کي ايک پارٹي سے تو تو ميں ميں ہو گئ ۔ يہ پارٹي بہت غريب تھي مگر خون ان کے بھي جوان تھے۔ اس کي قسمت بري کہ وہ انہيں للکارنے ان کے گھر پہنچ گيا۔ انہوںنے اپنے گھر کي چھت سے گولي چلائي اور اسے قتل کرديا۔
دوسرا حصہ پڑھنے کیلیے اس لنک پر کلک کیجیے