آخ تک ہم نے یہ نہ دیکھا اور نہ سنا کہ ملک تاریخ کے نازک دوراہے پر کھڑا ہو ، طرح طرح کے اندرونی مثائل قوم کو گھیرے بیٹھے ہوں اور ملک کا صدر اور وزیرِاعظم ایک ساتھ غیرملکی دوروں پر روانہ ہوجائیں۔ ہماری حکومت کو چاہۓ کہ کم از کم اگر سیروتفریح کرنی ہی ہے تو ایک ایک کر کے کرے۔ دونوں میں سے کم از کم ایک تو ملک میں موجود رہنا چاہۓ۔ اس سے تو دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ یا تو ان حاکموں کی نظر میں موجودہ مثائل اہم نہیں ہیں یا پھر ان کی حکومت ان مسائل کی بجاۓ ان کے آقا کی خوشنودی کی مرہونِ منت ہے۔

جب انڈیا میں کرکٹ سیریز ہوئی تو ہم نے خود کہ کر ان سے دعوت منگوائی اور میچ دیکھنے چلے گۓ اور اب ہم نے ان کے سربراہ کو میچ دیکھنے کی باقائدہ دعوت دی جو انہوں نے بے اعتنائی سے ٹھکرا دی اور بہانہ یہ کیا کہ ان کی مصروفیات اس دورے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ادہر ہمارا یہ حال ہے کہ ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے اورہر کوئی جب چاہے اور جہاں چاہے ہمیں بلا لے ہم دوڑے چلے جائیں گے۔ ہمیں نہ تو زلزلہ زدگان کی آبادکاری کی اب فکر رہی ہے اور نہ ہی بلوچستان کی صورتحال کی۔

لگتا ہے صدر اور وزیرِاعظم کواپنے وزیرِ اطلاعات شيخ رشید پر اس قدر بھروسہ ہے کہ وہ انہیں تنہا سارے کام نپٹانے کیلۓ پیچھے چھوڑ گۓ ہیں۔

  خدا کا کچھ خوف کیجۓ اورحکومتی معاملات سنجیدگی سے نپٹایۓ۔ صرف یہ آپ کی ہی کارکردگی ہے جس پر سارے ملک کے عوام کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ لیکن بات پھر وہیں پر ختم ہوتی ہے کہ جب عوام خود کچھ نہیں کریں گے تب تک ان کے حالات نہیں بدلیں گے۔