کل جو غزہ اورجنوبی کنارے میں فلسطینیوں کے انتخابات ہوۓ ہیں ان میں حماس نے واضح کامیابی حاصل  کرلی ہے۔ یہ کامیابی بھٹو کی پی پی پی کی تحریک کی طرح دن دیہاڑے حاصل نہیں ہوئی بلکہ حماس ۱۹۷۰ سے پلاننگ کے ساتھ آہستہ آہستہ اس مقام تک پہنچی ہے۔

حماس ایک فلاحی تنظیم سے شروع ہوئی اور سیاسی میدان میں تب اتری جب وہ اپنا ہوم ورک مکمل کرچکی تھی۔ حماس نے سوشل نیٹ ورک سے کام شروع کیا۔ غریبوں کی امداد کے ادارے قائم کۓ، مزہبی اداروں کو کامیابی سے چلایا اور تعلیم کا نظام بھی قائم کیا۔ اس وقت جو حماس کو کامیابی نصیب ہوئی ہے وہ اسی ووٹ بنک کی وجہ سے ہے۔ حماس کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ اس نے کرپشن کو ختم کیا جو الفتح پارٹی نہ کرسکی۔ اس ایمانداری اور سچائی کا صلہ آج حماس کو کامیابی کی شکل میں ملا ہے۔ حماس کی تعلیمی اداروں میں دلچسپی نے تعلیم کو عام کرنے میں خاصی مدد کی ہے اور اس کا اعتراف بین الاقوامی تنظیمیں بھی کرچکی ہیں۔ اس وقت فلسطینی حماس کو ایک صاف شفاف، ہمدرد اور نیک تنظیم مانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور ان کا دیا ہوا مال لٹیرے سیاسی لیڈروں کی جیبوں میں نہیں جاتا ہے۔۔

حماس کی کامیابی سے ہماری موجودہ سیاسی قیادت کو بھی سبق سیکھنا چاہۓ ۔ اگر کوئی پارٹی سیاست میں کامیاب ہونا چاہتی ہے تو اسے بھی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہو گا، پارٹی میں ڈکٹيٹرشپ کو ختم کرنا ہوگا اور تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

 ہماری موجودہ حکومت کی سب سے بڑی برائی تعلیمی اداروں سے شفاف سیاست  کی  پابندی ہے جس کی وجہ سے ہماری سیاست میں تربیت یافتہ پڑھے لکھے سیاستدانوں کا خلا پیدا ہورہا ہے جو بعد میں پر کرنا مشکل ہوتا جاۓ گا۔ ہم نہیں کہتے کہ تعلیمی اداروں کو سیاست کا اکھاڑہ بنادو اور تعلیمی نظام کو تباہ کردو۔ ہمارا نقطہء نظر صرف یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایسا نظام ہو جس سے پڑھے لکھے سیاستدانوں کی گریجوایشن ہوتی رہے۔

اب یہ ہماری موجودہ سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حماس کے نیٹ ورک کا تجزیہ کریں اور اس کی طرح پارٹی کو کرپشن سے پاک کرتے ہوۓ اپنے عوام کی خدمت کیلۓ وقف کردیں تاکہ اگلے الیکشن میں ان کا ووٹ بنک ان کو کامیاب کرسکے۔ اب انتخابات جیتنے کیلۓ صرف ایک ہی نعرہ باقی رہ گیا ہے جو ابھی تک آزمایا نہیں گیا اور وہ ہے کرپشن سے پاک معاشرے کا قیام اور یہ نعرہ حماس سے مستعار لیا جا سکتا ہے۔