بچپن سے ہم کتابوں ميں پڑھتے آۓ ہيں کہ اتفاق ميں برکت ہے مگر کبھي اس فارمولے پر صدقِ دل سے عمل نہيں کيا۔ ہميں معلوم ہے کہ ہمارا دشمن ہماري انگلياں ايک ايک کرکے مروڑ سکتا ہے مگر اگر ہم ان کو بند کرکے مکا بنا ليں تو دشمن دم دبا کر بھاگ جاۓ گا۔

اسي طرح بزرگ ہميں ايک اور واقعہ سنايا کرتے تھے۔ ايک آرائيں نے پانچ لڑکوں کو اپنے کھيت سے گنے چراتے ہوۓ پکڑ ليا اور سوچنے لگا کہ وہ پانچ ہيں اور وہ اکيلا ان پانچوں کو کيسے سبق سکھاۓ۔ اس کو ايک تجويز سوجھي اور وہ سب سے پہلے چھوٹي ذات والے کي طرف متوجہ ہوا۔ وہ اسے کہنے لگا کہ چوہدري کا بيٹا زمينوں کا مالک ہے، جٹ مال مويشي والا، ترکھان ہماري ہل ٹھيک کرتا ہے موچي ہمارے جوتے سيتا ہے وہ ميرے گنے توڑ سکتے ہيں مگر جولاہے کي اولاد تو نے گنا کيوں توڑا۔ يہ کہ کر اس نے جولاہے کے بيٹے کو مارنا شروع کرديا اور اس کے چاروں دوست يہ سوچ کر کھڑے تماشا ديکھتے رہے کہ ان کي جان بچ گئ۔ مگر اس کےبعد آرائيں نے ايک ايک کرکے يہي گر سب پر آزمايا اور آخر ميں چوہدري کے بيٹے سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ چوہدري ہو تم اپنے گھر ميں مگر ميرا گنا تم نے کيوں توڑا اور اس کي بھي باقيوں کي طرح خوب ٹھکائي کي۔ وہ دن اور آج کا دن ان لڑکوں کو دوبارہ گنے توڑنے کي ہمت نہیں ہوئي۔

يہي حال اس وقت امتِ مسلمہ کا ہے۔ ہمارے دشمن ہميں ايک ايک کرکے نپٹ رہے ہيں اور ہم باہر کھڑے يہ تماشا ديکھ کر شکر ادا کر رہے ہیں کہ ہم بچ گۓ۔ مگر ہميں ياد رکھنا چاہۓ کہ ہميں بھي دشمن آرائيں کي ترکيب لڑا کر سب کو کچا چبا جائیں گے۔

نا اتفاقي کي کہاني اب تو گھر گھر کي کہاني ہے۔ بہن بھائي ايک دوسرے سے ناراض ہيں، اولاد والدين سے منہ موڑ رہي ہے، محلے دار ايک دوسرے کے گھر نہیں جاتے، شہر ذات برادريوں ميں بٹ چکے ہیں اورمسلمان ملک نسل پرستي کي وجہ سے ايک دوسرے کے دشمن بنے بيٹھے ہيں۔ آج تک ايک بھي ماں کا لال پيدا نہیں ہوا جس نے اتفاق پيدا کرنے کي کوشش کي ہو۔ ہم سب ايک دوسرے کي جڑيں کاٹ آگے نکلنے کي کوشش ميں لگے ہوۓ ہيں۔

مگرسوچنے والي بات يہ ہے کہ اگر ہندوستان اور چين جيسے بہت بڑے ملک متحد رہ سکتے ہيں، يورپ ايک بار پھر اکٹھا ہوسکتا ہے، دنيا بھر کے يہودي ايک پليٹ فارم پر جمع ہوسکتے ہيں اور سب سے بڑھ کر يہ کہ امريکہ کي چھپن رياستيں اکٹھي رہ سکتي ہيں، تو پھر مسلمانوں کے ٥٩ ممالک ملکر ايک ملک کيوں نہيں بن سکتے۔ کتنا مزہ آتا جو ٥٩ ممالک صوبے ہوتے اور يہ سب ايک ملک بن کر مکہ کو اپنا ہيڈ کوارٹر بنا کر دنيا ميں راج کررہے ہوتے۔

مگر تب تک يہ سب خواب کي باتيں ہي رہيں گي جب تک بے ايمان اور خودغرض حکومتيں ہرمسلمان ملک پر حکمران ہيں اور مسلمان خوابِ غفلت سے جاگ کر ان کو ہٹا نہیں ديتے۔