منظرنامہ والوں نے آخرکار اردو بلاگ ایوارڈ 2008 کے نتائج کا اعلان کر ہی دیا جس میں ہمیں فعال ترین بلاگ کا ایوارڈ ملا۔ ویسے یہ ایوارڈ کوئی اتنا اہم نہیں ہے کیونکہ لکھ سب سکتے ہیں جیسا کہ ہم لکھ رہے ہیں مگر خوبصورت اور دیکھ بھال کر لکھنا ہر کسی کا کام نہیں ہے۔

اس لیے ہم اس ایوارڈ پر اتنے اترا نہیں رہے جتنا راشد کامران کو اترانا چاہیے کیونکہ ان کے بلاگ نے بہترین اردو بلاگ کا ایوارڈ جیتا ہے اور یہی سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ ہم راشد کامران صاحب کو مبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بلاگنگ میں اپنا منفرد مقام قائم رکھیں گے۔ ویسے 2009 میں انہیں سخت مقابلے کی امید رکھنی چاہیے کیونکہ کافی نئے بلاگ میدان میں آ چکے ہیں جو اس کیٹیگری میں منتخب ہو سکتے ہیں۔ ابو شامل نے نئے بلاگ کی کیٹیگری میں جیت کر خطرے کی گھنٹٰی پہلے ہی بجا دی ہے۔ تینوں ایوارڈ میں ابو شامل کو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ہے۔

ہم لکھتے ہیں اسلیے کہ ہمیں لکھنے کیلیے وقت مل جاتا ہے اور پھر دل کی بھڑاس بھی نکل جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہماری ہر تحریر سب کو اچھی لگے مگر ہم اپنے دل کی بات اپنے بلاگ پر بناں کسی خوف اور جھجھک کے کہ ڈالتے ہیں۔ ہم بہت ڈرپوک واقع ہوئے ہیں اس لیے جو باتیں ہم سرعام سب کے سامنے کہنے سے ڈرتے ہیں وہ اپنے بلاگ پر لکھ کر خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔

ویسے ہم اس سال پوری کوشش کریں گے کہ ہماری تحاریر کا تعداد کیساتھ ساتھ معیار بھی بڑھے اور اس کیلیے ہم ایک دفعہ پھر اپنے ساتھی بلاگرز اور قارئین کی رائے لیں گے اور ان کی رائے کیمطابق اپنے بلاگ کو بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔

دراصل سیاست ایک روکھا اور بے جان سا موضوع ہے جس کو پرکشش بنانے کیلیے کالم نگار عطاالحق قاسمی کی شاگردی اختیار کرنی پڑے گی۔ ویسے راشد کامران بھی سیاست کے موضوع میں مزاحیہ پن ڈالنے کے ماہر ہیں اور اسی وجہ سے ان کی تحاریر زیادہ جاندار ہوتی ہیں۔

اب کیا کریں دنیا جہان کے بکھیڑوں سے جو بھی وقت نکلتا ہے اس میں صرف سیدھی سادھی تحریر ہی لکھی جا سکتی ہے۔ مستقبل میں ریٹائر ہونے کے بعد ہو سکتا ہے مطالعے اور تحقیق کا زیادہ وقت مل پائے۔ ابھی تو جو منہ میں آتا ہے بلاگ پر لکھ دیتے ہیں۔ اس جلد بازی میں کئی غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور تحریر بھی عام سی لگتی ہے۔