ایک حکمران کو جب ضرورت پڑی تو اس نے ساری دنیا سے پاکستانی سائینسدانوں کو پاکستان واپس آکر ایٹمی تحقیقاتی ادارے میں کام کرنے کی ددرخواست کی۔ جو لوگ اس وقت اس اپیل پر واپس آۓ ان میں ایک ڈاکٹر عبدل قدیر خان بھی تھے۔ ان کے آنے کے بعد ان پر الزام لگا کہ وہ باہر سے ایٹمی راز چرا کر لاۓ ہیں مگرعالمی ایٹمی ادارے اور امریکہ سمیت اس وقت کسی نے ان کے خلاف مقدمہ چلانے یا انہیں گرفتار کرنے کی درخواست نہیں کی اور اگر کی بھی تو پاکستان نے کسی کی نہ سنی۔
پھر وقت گزرتا رہا پاکستان میں حکمران بدلتے رہے مگر خان صاحب اپنے کام میں مگن رہے۔ جب ہندوستان نے دوبارہ ایٹمی دہماکہ کرکے دنیا میں تہلکہ مچا دیا تو پھر خان صاحب کی کارکردگی دکھانے کا موقع بھی آیا اور پاکستان نے بھی ایٹمی دہماکہ کر دیا۔ حالانکہ ہندوستان اس سے پہلے ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا اور کسی نے اس کے خلاف پابندی نہیں لگائی تھی مگر اس دفعہ دونوں ملکوں کے خلاف امریکہ نے پابندیاں لگا دیں۔
اس کے کچھ عرصہ بعد امریکہ کی پلاننگ کے مطابق دنیا کے حالات نے پلٹا کھایا اور اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت آ پڑی۔ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے امریکہ کی آواز پر لبیک کہا اور پاکستانی حکومت نے وہ کارنامے انجام دیۓ جن کی پاکستانی عوام کی اکثریت نے مخالفت کی۔ ان کارناموں میں سے ایک خان صاحب کے خلاف تادیبی کاروائی بھی تھی۔ خان صاحب کو پہلے تو خوب بدنام کیا گیا اور پھر آخر میں ان کو ٹی وی پر پیش کرکے ان کی عزتِ نفس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ مگر خان صاحب نے ٹی وی پر ایک فقرہ ایسا کہا جس کا کسی کے پاس ابھی تک کوئی جواب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک جو انہوں نے کیا وہ ملک کے مفاد میں کیا۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان کے باباۓ ایٹم بم اپنےناکردہ جرم کی پاداش میں اپنے ہی گھر میں قید زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں۔
خان صاحب پر جو بھی الزامات لگاۓ گۓ ہیں عقل نہیں مانتی کہ وہ سارے کام خان صاحب نے اپنی ذات کیلۓ کۓ ہوں گے اور ان میں حکومت شامل نہیں ہوگی۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری خفیہ ایجینسیاں ہر وقت اہم شخصیات کی جاسوسی کرتی رہتی ہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خان صاحب دوسرے ملکوں کے ساتھ سودے بازی کریں اور ہماری حکومتوں کو پتہ نہ چلے۔ یہ سو فیصد یقینی ہے کہ ایران اور لیبیا کے ساتھ جو بھی لین دین ہوا وہ اس وقت کے حکمرانوں کی مرضی سے ہوا اور ان کے ساتھ ملکر ہوا۔ اس لین دین میں حکومت کے لوگون نے جو مال بنایاہو سکتا ہے اس میں سے کچھ خان صاحب کو بھی دے دیا ہو کیونکہ وہ خان صاحب کے بغیر اس طرح کا کاروبار نہیں کرسکتے تھے۔ اور جب لیبیا اور ایران نے اس تجارت کا بھانڈا پھوڑا تو سارا نزلہ خان صاحب پر آگرا۔
چلیں مان لیا کہ خان صاحب نے یہ سب کچھ اپنی ذات کیلۓ کیا اور اکیلے کیا مگر جو انہوں نے ملک کیلۓ کیا اس کیلۓ اگر وہ اپنا گھر سونے سے بھی بھر لیتے تو وہ ناکافی تھا۔کیاکریں ہمارا دل نہیں مانتا کہ خان صاحب نے یہ سب اکیلے اور صرف اپنے لیۓ کیا ہوگا۔
ایک پاکستان ہے جس نے اپنے باباۓ ایٹم بم کو ذلیل کیا اور ایک ہندوستان ہے جس نے اپنے باباۓ ایٹم بم کو ملک کا صدر بنا دیا۔
اس کے علاوہ ملک کو نقصان پہچانے والے دوسرے لوگوں نے باعزت زدگی گزاری اور پھر اعزاز کے ساتھ دفن ہوۓ۔ مشرقی پاکستان میں ہندوستان کے خلاف ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی نے بعد میں پاکستان میں بھر پور زندگی گزاری۔ جنرل یححی جو سرِعام شراب پیتا تھا اور نورجہاں کے ساتھ عیاشی کرتے ہوۓ دیکھا گیا اور جس نے اپنے اقتدار کی خاطر ملک توڑ دیا اس کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ اسی طرح آج تک کسی فوجی یا سیاستدان کو کرپشن میں سزا نہیں ہوئی حلانکہ یہ ورلڈ ریکارڈ ہے کہ دنیا میں سب سے امیر جنرل پاکستانی جنرل ہیں۔ اگر یہ سارے لوگ ملک کو کچھ دیۓ بغیر اتنے گھپلے کر کے سزا کے مستحق قرار نہیں پاتے تو پھر خان صاحب کو کیوں اتنی بڑی سزا دی گئ۔صرف اسلۓ کہ ان کو قربانی کا بکرہ بنا کر حکمران اپنے دامن بچا لیں۔ واہ رے خود غرضی تونے کتنے بہادر لوگوں کو بےضمیر بنا دیا۔ واہ رے لالچ تو نے ملک کے لیڈروں کو کتنا بےحس بنا دیا کہ وہ کسی کا حق مارتے ہوۓ ذرا نہیں گھبراۓ۔
ہماری خدا سے دعا ہے کہ جس طرح اس کی قدرت نے مشرقی پاکستان کو توڑنے والوںیعنی بھٹو، مجیب اور اندرا گاندھی کو عبرت ناک انجام سے دوچار کیا اسی طرح وہ خان صاحب کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو بھی ان کے انجام تک پہنچاۓ اور انہیں بھی آنے والی نسلوں کیلۓ عبرت کا نشان بنا دے۔