ساری دنیا اور بالخصوص اسلامی ممالک کے مسلمانوں نے اسرائیل کے غزہ پر حملے پر احتجاج کیا مگر اس کا کوئی  اثر نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی مگر عراق کی طرح اس قرارداد پر کسی نے زبردستی عمل کرانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی قرارداد پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جنگ کی دھمکی دی گئی۔ مسلمان ملکوں کے عوام کی اکثریت نے اسرائیلی حملے کو کھلی دہشت گردی قرار دیا مگر ان کے حکمرانوں نے اپنی زبانیں بند رکھیں جیسے وہ فلسطینیوں کے نہیں بلکہ اسرائیل کے طرفدار ہوں۔ بارہ سو سے زیادہ مسلمان شہید کر دیے گئے مگر مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا کیونکہ ان کا اقتدار محفوظ رہا۔ عوام نے اسرائیل کے خلاف تو احتجاج کیا مگر اپنے حکمرانوں کی سرزنش کیلیے سڑکوں پر نہیں نکلے۔

جماعت اسلامی کے احتجاج سے لیکر فرانس تک میں لوگ سڑکوں پر نکلے مگر اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اپنی مرضی سے غزہ پر حملہ آور ہوا اور اپنی مرضی سے یکطرفہ جنگ بندی کر کے واپسی کی تیاریوں میں ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ شاید اتنی بڑی تباہی کے باوجود فلسطینیوں کے دلوں میں ایسا خوف پیدا نہیں کر سکا جیسا ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں سپرپاور نے خوف پیدا کیا ہوا ہے۔ بچ جانے والے فلسطینی پھر اکٹھے ہوں گے اور اپنی آزادی کی جدوجہد اسی شان سے جاری رکھیں گے جس شان سے وہ پہلے جاری رکھے ہوئے تھے۔

اس سارے قضیے سے صرف ایک ہی سبق ملتا ہے کہ طاقتور جارح کیخلاف احتجاج کرکے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ احتجاج اپنی حکومتوں کیخلاف کرنا چاہیے جنہوں نے عوام کی ترجمانی نہیں کی۔ جس دن عوام اپنی حکومتوں کو اپنی مرضی منوانے کے قابل ہو گئے اس دن یو این کی قراردادوں پر عمل بھی شروع ہو جائے گا اور جارح حملہ کرنے سے قبل سو بار سوچے گا۔

ہماری تو دعا ہے کہ اے خدا ہمارے حکمرانوں کو اپنی حکومتوں کی فکر میں دریائے نیل پیدل پار کرنے پر مجبور کر اور جب وہ دریا کے درمیان میں پہنچیں تو انہیں غرق کر دے۔ آمین۔ کیونکہ اب جاہل، خودغرض اور غدار حکمرانوں کی رخصتی کا صرف یہی ایک طریقہ بچا ہے۔ وہ اسلیے کہ عوام تو ایسا کرنے والے نہیں۔