واشنگٹن کی نئی حکومت نے پاکستان کا وائسرائے بدل دیا ہے مگر مزے کی بات یہ ہے کہ وائسرائے کے نام کا صرف آخری حصہ بدلا ہے تا کہ پاکستانیوں کو نام یاد رکھنے میں آسانی رہے۔ رچرڈ باؤچر کی جگہ رچرڈ ہولبروک نے عنان حکومت سنبھال لی ہے۔ نئے وائسرائے نے حکومت سنبھالتے ہی اپنی راجدھانی کا دس روزہ طویل دورہ کل سے شروع کر دیا ہے اور اپنی کابینہ یعنی پاکستانی قیادت بشمول صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ، مشیر داخلہ، اور سیکریٹری خارجہ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اگلی ملاقات فوجی قیادت سے متوقع ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق رچرڈ ہولبروک میں دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ وہ نرمی سے بھی کام نکالتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے دباؤ بھی ڈالتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے “رچرڈ ہولبروک کو ہاتھ مروڑنا بھی آتا ہے اور ہاتھ پکڑنا بھی”۔

رچرڈ ہولبروک کا پچیس سالہ ایڈمنسٹریشن کا تجربہ ہے۔ ان کے سینے پر بوزنیا معاہدے کا تمغہ بھی سجا ہوا ہے۔ وہ نیویارکر ہیں اور مین ہیٹن میں قائم اپنی انویسٹمنٹ فرم کےابھی تک وائس چیئرمین تھے۔ وہ دس سال بعد دوبارہ حکومتی امور کیلیے منتخب کئے گئے ہیں۔ چونکہ رچرڈ ہولبروک پاکستان کیساتھ ساتھ افغانستان کے وائسرائے بھی منتخب ہوئے ہیں اسلیے واشنگنٹن انتظامیہ نے دونوں ملکوں کو ملا کر اس خطے کو”افپاک” کا نیا نام دیا ہے۔

ریٹائرڈ آرمی جنرل ویزلے کلارک کا کہنا ہے کہ رچرڈ ہولبروک کے دس روزہ طویل دورے کی ایک خاص وجہ ہے۔ ان کے مطابق افپاک کی حکومتیں کمزور ہیں اور رچرڈ ہولبروک ان کا نعم البدل تلاش کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس فن میں وہ قدرتی مہارت رکھتے ہیں۔

رچرڈ ہولبروک کے ساتھی کرسٹوفر ہل جو عراق کے ایمبیسیڈر بن سکتے ہیں کا کہنا ہے کہ افپاک کا مسئلہ زندگی سے بھی بڑا مسئلہ ہے اور اس سے نپٹنے کیلیے ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو زندگی سے بھی بڑا ہو۔ ان کے دوسرے ساتھی وائسرائے بننے پر نروس ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ رچرڈ کوبناں کچھ زیادہ دیے طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی عادت ہے۔

رچرڈ ہولبروک کے وائسرائے بننے کے بعد واشنگٹن میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ افپاک کی ایمبیسیوں کو آیا سٹیٹ دیپارٹمنٹ کنٹرول کرے گا یا رچرڈ ہولبروک۔ نسئے وائسرائے کے بارے میں مزید پڑھنے کیلیے نیویارک ٹائمز کا آرٹیکل پڑھیے۔