صدر کلنٹن اپنے دورِ صدارت ميں مونيکا کے کيس ميں جب پھنسے تو تب تک انہوں نے اس جرم سے انکار کيۓ رکھا جب تک يقين نہيں ہوگيا کہ اب بچنے کي کوئي راہ نہيں ہے۔ اس سے پہلے وہ بار بار کہتے رہے کہ مونيکا کا الزام جھوٹا ہے۔

صدر بش نے جب عراق پر جوہري ہتھياروں کا الزام لگايا تو تب تک اس پر اصرار کرتے رہے جب تک يہ ثابت نہيں ہوگيا کہ عراق کے پاس جوہري ہتھيار نام کي کوئي چيز نہيں ہے۔

صدر بش کے مخالف نے جب ان کے عراق کے جوہري ہتھياروں کے الزام کو فراڈ سے تعبير کيا تو صدر بش کي حکومت نے ان صاحب کي بيوي کے سي آئي اے کيلۓ کام کرنے کے راز کو فاش کرديا۔ پھر صدر بش نے کہا کہ جو بھي کوئي اس کيس ميں ملوث پايا گيا اسے نوکري سے نکال ديا جاۓ گا۔ اب اصل ملزم نے کہا ہے کہ نائب صدر نے صدر بش کے کہنے پر يہ راز فاش کيا تھا تاکہ اس شخص کي مخالفت کي اسے سزا دي جاۓ۔ اب بتائيں کون کس کو نوکري سے نکالے گا۔

جب اتنے بڑے بڑے طاقتور اور جمہوري حکومتوں کے سربراہوں کا يہ حال ہے تو پھر آپ خود ہي سوچيں کہ ان کے چھوٹے موٹے چيلوں کا کيا حال ہوگا۔

صدر مشرف نے وردي اتارنے کا وعدہ سرِ عام کيا اور پھر اپنے وعدے سے سرِ عام مکر گۓ۔ مکرنے کي وجہ يہ بتاتے ہيں کہ معاہدہ کے دوسرے فريق نے وعدہ خلافي کي اسلۓ وہ بھي اپنا وعدہ توڑتے ہيں۔ يہ وہي بات ہوئي کہ کسي نے اگر ايک گالي دي تو جواب ميں شکائت لگانے کي بجاۓ تم بھي گالي دو۔ يا اگر کسي نے تمہارے ساتھ زيادتي کي تو اس کے خلاف ايف آئي آر درج کرانے کي بجاۓ تم بھي اس کے ساتھ زيادتي کرو۔

وزيرِ اعظم صاحب جب سے حکومت ميں آۓ ہيں يہي رٹ لگاۓ جارہے ہيں کہ ملک ترقي کر رہا ہے اور غربت ختم ہورہي ہے۔ مگر حقيقت ميں غربت ختم نہيں ہورہي بلکہ غريب بيماريوں اور حادثوں کا شکار ہوکر ختم ہورہے ہيں۔

چيني مہنگي ہوئي تو حکومت نے آنکھيں بند کرليں تاکہ انہي کے دوست احباب اس منافع خوري سے جيبيں بھر سکيں اب کہ رہے ہيں کہ وہ تحقيق کريں گے کہ کس نے کتنا مال بنايا۔ کيا کبھي کسي نے اپنوں کا احتساب کيا ہے۔ کبھي نہيں کيونکہ يہ ہماري روائت ہي نہيں۔

اب تو ايسا دور ہے کہ کسي پر اعتبار ختم ہي ہوگيا ہے۔ ہر کوئي چکر دينے کے موڈ ميں نظر آتا ہے۔ حکومت سارے کي سارے مال کمانے ميں لگي ہوئي ہے۔ رشتے دار رشتے دار کو دھوکہ دے رہے ہيں۔ نوکر مالک کو چکر دے رہا ہے تو ملک نوکر کا حق مار رہا ہے۔

حکومت پوليس کے محکمے کے اوورہال کے وعدے کرتي ہے مگر اس کي ہمت اسلۓ جواب دے جاتي ہے کہ اگلے اليکشن ميں اسي پوليس نے انہيں جتوانا ہے۔

حالات تبھي بدليں گے جب غريب اٹھيں گے۔ جب لوگوں کو دال روٹي ملنا بند ہوجاۓ گي۔ جب ہرکوئي بے انصافي کا شکار ہورہا ہوگا۔ جب امير اور غريب کا فرق زمين آسمان جتانا ہوجاۓ گا۔ اس سے پہلے کچھ بھي نہيں ہونے والا۔ ہم تو صدر اور وزيرِ اعظم کو يہي مشورہ ديں گے کہ يہي وقت ہے قوم کو بيچنے کا کيونکہ قوم سوئي ہے اور اس کے جاگنے سے پہلے ہي اس کا سودا کردو۔ جب جاگے گي تب تک بہت دير ہوچکي ہوگي اور پھر پتہ نہيں کتني صدياں لگيں گي غلامي سے نکلنے کيلۓ؟