سینیٹ کے انتخابات آج کل منعقد ہو رہے ہیں بلکہ سندھ کے امیدوار تو بلامقابلہ منتخب بھی ہو چکے ہیں۔ ان انتخابات پر ہمیں دو اعتراضات ہیں۔ ایک تو ان کا طریقہ انتخاب ہی غلط ہے یعنی متناسب نمائندگی اور وہ بھی غیرجماعتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سینیٹ کے انتخابات بھی براہ راست ہوتے اور عوام خود سینیٹ کے اراکین منتخب کرتے۔

سینیٹ کیلیے ان لوگوں کو منتخب نہیں کیا جانا چاہیے جو تازہ ترین انتخابات میں شکست سے دو چار ہو چکے ہوں۔ وہ لوگ سینیٹ میں عوامی نمائندگی کس منہ سے کریں گے جن کو عوام نے پہلے ہی مسترد کر دیا ہو۔ لیکن ہمارے ہاں سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے یعنی جو عام انتخابات میں جیت نہیں سکا یا انتخاب لڑنے کا اہل نہیں تھا اسے پہلے وزیر داخلہ کی بجائے مشیر داخلہ بنا دیا گیا اور اب سینیٹر بنا کر وزیر داخلہ بنا دیا جائے گا۔ اسی طرح چوہدری شجاعت اور جہانگیر بدر کی طرح کے نامی گرامی سیاستدان جو انتخابات ہار گئے اب بناں کسی تردد کے سینیٹر بن جائیں گے۔

ابھی تک سینیٹ کا کردار سیاسی اور فوجی دونوں حکومتوں میں کوئی قابل ذکر نہیں رہا سوائے اجلاسوں میں بحث مباحثوں کے اور صدر کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینٹ کے قائم مقام صدر بننے کے۔ جنرل مشرف کے دور میں سیاستدان سینیٹرز نے نہ تو استعفے دیئے اور نہ ہی آمر کیساتھ ٹکرانے کی ہمت کی بلکہ اکثریت تو اس کی جھولی میں جا بیٹھی۔