وکلاء تحریک کی کامیابی پر جو سروے ہم نے کرایا اس کی کامیابی اور ناکامی کے حق میں قارئین کی رائے ففٹی ففٹی رہی۔ ہماری نظر میں اس کی وجہ عوام کو چیف جسٹس کی بحالی تمام مسائل کا حل نظر نہیں آ رہی تھی اور کسی حد تک قارئین ٹھیک بھی ہیں کیونکہ ہماری حکومتوں نے کبھی بھی سیاسی مسائل کا حل خودغرضی سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچا اور ہمیشہ اپنا مفاد سامنے رکھا ہے۔

n

کیا وکلاء تحریک کامیاب ہو جائے گی؟
View Results

نوٹ: اس سروے کے آخری دنوں میں جوں جوں وکلاء تحریک زور پکڑتی گئی قارئین کو اس کی کامیابی نظر آنے لگی یہی وجہ ہے کہ پچھلے ہفتے وکلاء تحریک کی کامیابی کے حق میں ووٹ زیادہ پڑنے لگے اور تحریک کی کامیابی کا پلڑا بھاری ہو گیا۔

ججوں کی بحالی ظاہر ہے وکلاء تحریک کے دباؤ کا نتیجہ ہے اور پیپلز پارٹی اگر اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گی تو اس سے بڑی بیوقوف جماعت کوئی نہیں ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بھٹو نے قومی اتحاد کی تحریک کے نیتجے میں شراب پر پابندی لگائی اور جمعہ کو ہفتہ وار چھٹی کا اعلان کیا۔ جنرل مشرف نے چیف جسٹس کی بحالی وقتی طور پر قبول کی اور صدارت سے استعفی دیا۔ لیکن یہ بات بھی درگزر کرنے والی نہیں ہے کہ جس طرح مشرف کی روانگی ڈیل کا حصہ تھی اسی طرح چیف جسٹس چوہدری افتخار کی بحالی بھی کسی ڈیل کا حصہ نہ ہو۔ اس شک کا تعین چیف جسٹس افتخار کے شروع کے اقدامات سے ہو چائے گا۔ اگر تو چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی چیف جسٹس ڈوگر کی طرح ملک کے نازک مسائل مثلا پاکستانیوں کی گمشدگی، پنجاب حکومت کی برطرفی، نومبر تین کے اقدامات جیسے ایشوز پر خاموش رہے تو ہم سمجھیں گے کہ ان کی بحالی کسی ڈیل کا حصہ تھی اور اس طرح صدر زرداری ایک دفعہ پھر نوازشریف کو چکما دینے میں کامیاب رہے۔

کچھ اقدامات ایسے ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے بعد اٹھائے جائیں تو ان کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار کی بحالی بھی ان میں سے ایک ہے۔ ججز اگر پہلے بحال ہوتے تو ان کی سپریم کورٹ میں اکثریت ہوتی مگر اب حکومت کےججز کی اکثریت ہے اور چیف جسٹس افتخار اقلیت میں ہوں گے۔ وکلاء یہ نہ سمجھیں کہ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد ان کی تحریک کامیاب ہو گئی یا پھر وہ کامیاب ہو گئے۔ وہ کامیاب تب ہوتے اگر صرد زرداری کو ایوان صدر سے رخصت کر دیا جاتا اور کوئی مخلص شخص کرسی صدارت پر براجمان ہوتا۔

ججوں کو بحال کرکے وقتی طور پر تو صدر زرداری نے اپنے آپ کو بہت بڑے بحران سے بچا لیا ہے مگر وہ یہ نہ سمجھیں کہ اس کے بعد اب چین ہی چین ہے۔ اگر انہوں نے اپنے اطوار نہ بدلے تو انہیں نئے بحران کیلیے تیار رہنا چاہیے۔ جب تک پنجاب حکومت بحال نہیں ہو گی ان کے سر پر خطرات منڈلاتے رہیں گے۔

ہمارے خیال میں موجودہ سیاسی بحران کا حل مڈٹرم انتخابات ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی وعدہ خلافیوں اور ڈکٹیٹرشپ کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اور اگر مڈٹرم انتخابات کرا دیے جائیں تو عوام کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے کا ایک اور چانس مل جائے گا۔ اس تجویز پر عمل کرنا پیپلز پارٹی کیلیے خود کشی کے مترادف ہو گا اسلیے اس پر وہ غور کرنا بھی پسند نہیں کرے گی۔

ان تمام خدشات کے باوجود چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی پر ہم وکلاء کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو کوئی سیاسی جماعت نہیں کرسکی۔ وکلاء تحریک ہماری نظر میں ایک غیرسیاسی تحریک تھی اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی طبقے نے بغیر کسی سیاسی فائدے کے اتنی لمپی اور کامیاب تحریک چلائی۔ امید ہے سیاسی پارٹیاں بھی وکلاء کی جدوجہد کو مشعل راہ بنائیں گی اور ملک کے فائدے کیلیے اپنے آپ کو وقف کردیں گی۔