پانچ سال ہوگۓ ہيں ہم دہشت گردي کي رٹ لگاۓ جا رہے ہيں۔ پاکستان کے حکام بيروني ممالک کا دورہ کريں يا دوسرے ملکوں کے حکمران پاکستان کا دورہ کريں ملاقات کا نچوڑ يہي ہوتا ہے کہ دونوں ممالک ملکر دہشت گردي ختم کرنے کي کوشش کريں گے۔ يہ دہشت گردي نہ ہوئي افيون يا ہيروئين کي کاشت ہوگئ۔

ان گزرے پانچ سالوں ميں نہ تو انتہا پسندوں نے پاکستان ميں دہشت گردي کي اور نہ ہي ہمارے ہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوۓ۔ يہي نہيں دنيا کے دوسرے ممالک ميں بھي دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے کوئي باقائدہ جنگ نہيں چھيڑي۔ جو انگلينڈ، اسپين وغيرہ ميں اکا دکا واقعات ہوۓ ہيں وہ انفرادي کاروائي ہوسکتي ہے کوئي دہشتگردي کي جنگ نہيں۔

اب امريکہ ميں دہشت گردي کا اگر جائزہ ليں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وہاں آج تک کوئي بھي بڑا دہشت گرد گروہ نہيں پکڑا گيا۔ جو بڑا ستمبر گيارہ کا واقعہ ہوا اس ميں سواۓ ايک پاگل کے کوئي بھي مجرم ثابت نہيں ہوا۔ اگر اسامہ يا دوسرے دہشت گردوں کي يہ جنگ ہوتي تو ستمبر گيارہ کے بعد بھي جاري رہتي۔ اس سے تو يہي ثابت ہوتا ہے کہ يہ جنگ دہشت گردوں کي نہيں بلکہ ان با اثر لوگوں کي ہے جو اسلام کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہيں اور چاہتے ہيں کہ اسلام دوبارہ زندہ ہونے سے پہلے ہي ختم ہو جاۓ۔

پاکستان ميں فوجيوں کي حکومت ہميشہ ايک آدہ پرابلم کي مرہونِ منت رہي ہے۔ جنرل ضياالحق نے اسلام کے نام پر غيروں کے ايجينڈے کي پيروي کرتے ہوۓ گيارہ سال حکومت کي اور اب جنرل پرويز مشرف دہشت گردي کي آڑ ميں پھر غيروں کے ايک اور ايجينڈے کي تکميل کيلۓ کئ سال تک حکومت کريں گے۔ ان کي حکومت تب تک برقرار رہے گي جب تک غيروں کو ان سے بڑا وفادار نہیں مل جاتا۔

اگر ہماري موجودہ حکومت چاہتي تو بہت سے اچھے کا کرسکتي تھي مگر اچھے کاموں کيلۓ مخلصي اور ايمانداري شرط ہے جو ہمارے کسي بھي سابقہ اور موجودہ حکمران کے پاس نہ تھي اور نہ ہے۔ اگر موجودہ حکومت مخلص ہوتي تو عدليہ آزاد ہوتي، پوليس ميں ايماندار لوگ ہوتے، ہمارے وزير بزنس مين اور جاگيردار نہ ہوتے، ہمارے حکمرانوں اور رعايا ميں کوئ خاص فرق نہ ہوتا، غريب کو دو وقت کا کھانا ملتا اور ہر پاکستاني کي جان و مال کي حفاظت ہو رہي ہوتي۔

اب بھي وقت ہے کہ موجودہ حکومت دہشت گردي کا دھنڈورہ پيٹنا بند کردے اور لوگوں کے اصلي مسائل کي طرف توجہ دے۔ غريبوں کے استحصال کي فکر کرے، بيماريوں کي روک تھام کيلۓ اقدامات کرے اور ملک ميں تعليم عام اور سستي کرے۔ ابھي تعليم تو عام ہورہي ہے مگر صرف پرائيويٹ سيکٹر ميں اور يہ اتني مہنگي ہے کہ عام آدمي کي پہنچ سے باہر ہے۔ اگر حکومت آج ملک کے ساتھ مخلص ہوجاۓ تو ہمارے حالات بدلتے دير نہيں لگے گي۔ لوگ فوجيوں کو بھي برداشت کرليں گے اگر وہ عوام پرور ہوۓ تو۔ مگر ہمارا سب سے بڑا مسٔلہ يہي رہا ہے کہ جو بھي حکومت ميں آيا اس نے اپنا گھر ہي بھرا غرييوں کي بلکل پرواہ نہيں کي۔ آپ سارے سابقہ حکمرانوں کي لسٹ اٹھا کر ديکھ ليں وہ کروڑوں ميں کھيل رہے ہيں۔ موجودہ حکمرانوں کي دولت کا انکشاف بھي ان کے جانے کے بعد ہو گا اب تک تو سارے ايمانداري کي رٹ لگاۓ بيٹھے ہيں۔

ہمارا نعرہ وہي ہے جس کا ذکر ہم تواتر سے کرتے آرہے ہيں اور جو قرآن ميں واضح طور پر درج ہے۔ اس کا ترجمہ علامہ اقبال نے اپنے ايک شعر ميں بھي کيا ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کي حالت نہيں بدلي

نہ ہو جس کو خیال آپ اپني حالت کے بدلنے کا