آپ عنوان سے یہ مت سمجھ لینا کہ ہم ڈکیتی کی حکمت عملی بیان کرنے لگے ہیں بلکہ ڈکیتی کے دوران متاثرہ شخص کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ہم اپنے تجربے کی بنا پر اس کی بات کرنے جا رہے ہیں۔

جب ہم نوے کی دہائی میں نیویارک آئے تو ہمارے ساتھیوں نے جو بات سب سے پہلے ہمیں سمجھائی تھی وہ ٹیکسی ڈرائیونگ کا لائیسنس حاصل کرنے کے دوران انہیں سکھائی گئی تھی یعنی ڈکیتی کے وقت ڈاکو کے آگے بالکل مزاہمت مت کریں اور اس کی تمام باتیں من و عن مان لیں۔ اگر زندگی بچ گئی تو کھویا ہوا دوبارہ حاصل کر لیں گے اور اگر زندگی ہی نہ رہی تو پھر ڈاکو سے مال بچانے کا کیا فائدہ۔

یہ اصول ہمیں ایک بار پھر کامیاب لگا جب ہم نے سنا کہ دو دن قبل ہمارے عزیز کے بڑے بھائی پاکستان میں ڈکیتی کے دوران قتل کر دیے گئے۔ ہوا اس طرح کہ وہ آدھی رات کو گجرات سے وزیر آباد جا رہے تھے کہ پل پلکھو کے پاس ان کی کار کو ڈاکوؤں نے روک لیا۔ دراصل گجرات سے لاہور جاتے ہوئے اگر آپ وزیرآباد جانا چاہتے ہیں تو پھر بائی پاس پر جانے کی بجائے وزیرآباد کی اندرونی سڑک پر چل پڑتے ہیں۔ بائی پاس بننے کی وجہ سے یہ سڑک ویران ہو چکی ہے کیونکہ بہت کم ٹریف وزیرآباد شہر کی طرف جاتی ہے۔ لگتا ہے اسی ویرانی کا فائدہ اٹھا کر ڈاکوؤں نے وہاں ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ مقتول کی لاش سے نظر آ رہا تھا کہ اس نے ڈاکوؤں کیساتھ ہاتھا پائی کی تھی۔ ڈاکوؤں نے اسے قتل کیا، سڑک سے تھوڑی دور اس کی لاش پھینکی اور گاڑی  سمیت اس کے پاس جو کچھ تھا لیکر فرار ہو گئے۔

ہمارا خیال ہے اگر مقتول ڈاکوؤں کے آگے مزاہمت نہ کرتے تو شاید بچ جاتے اور وہ چھینی ہوئی گاڑی اور باقی اشیاء کے حصول میں دوبارہ جت جاتے۔ اب وہ جان سے بھی گئے اور لواحقین کیلیے بھی مشکلات پیدا کر گئے۔ ان کا بڑا بیٹا بیس سال کا ہے اور ابھی ایک سال ہی ہوا تھا ان کا کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا تھا۔ بیٹی پندرہ سال کی اور دوسرا بیٹا بارہ سال کا ہے۔

اسی طرح نیویارک میں بھی چند واقعات ایسے ہوئے جن کے دوران لٹنے والوں نے مزاہمت کی اور یا تو وہ جان سے گئے یا پھر ہسپتال پہنچ گئے۔ ہم دو دفعہ لٹے مگر جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمارے پڑوس میں ایک پہلوان نما نوجوان رہتا تھا۔ ایک دن رات کو جب وہ واپس گھر میں داخل ہونے لگا تو ایک چھوٹے سے لڑکے نے چاقو دکھا کر اس سے رقم چھین لی۔ بعد میں اسے خیال آیا کہ یہ چھوٹو مجھ سے کیسے رقم چھین سکتا ہے۔ انس نے اسے دوبارہ پکڑنے کی جونہی کوشش کی، ایک گولی اس کے پیٹ میں پیوست ہو گئی۔ بڑی مشکلوں سے اس کی جان بچی۔

یعنی اس کا مطلب یہی ہوا کہ ڈکیتی کے دوران آدمی کو اپنے ہوش و ہواس قائم رکھنے چاہیئیں اور جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ڈاکوؤں کو قابو کر سکتے ہیں تو بھی ان پر ہاتھ ڈالنے سے قبل سو دفعہ سوچیے، کیونکہ ڈاکو اپنی جان بچانے کیلیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آپ اگر جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر آپ ڈاکو کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کر سکیں گے اور اپنی لٹی ہوئی جمع پونجی کا ازالہ بھی کر سکیں گے۔ اسی لیے بڑوں کا قول ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ اور یہ جان زندگی میں ایک ہی دفعہ ملتی ہے۔