پنجاب حکومت کو پہلے ہٹانا اور ایک ماہ بعد بحال کرنا حکومت اور خاص طور پر گورنر سلمان تاثیر کیلیے تو ایک تماشا ہو گا مگر انہوں نے یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی ہوگی کہ یہ تماشا عوام کو کتنا مہنگا پڑے گا۔ ایک ماہ کے اندر اندر گورنر تاثیر نے پنجاب حکومت کے غلط اقدامات کا ازالہ کیا کرنا تھا انہوں نے پنجاب کا مہاراجہ رنجیت سنگھ بن کر وہ اتھل پتھل کی کہ تمام سرکاری کارندے تبادلوں میں ہی مصروف رہے۔ ان تمام تبادلوں کا فائدہ گورنر سلمان تاثیر اور چوہدریوں نے اٹھایا ہو گا اور اپنے تمام ادھورے کام ایک ماہ میں مکمل کر لیے ہوں گے۔ نقصان بھگتا تو بیچارے عوام نے جن کے خرچ سے گورنر سلمان تاثیر نے عیاشی کی اور نظام سقے کی طرح چند دن کی حکومت چلا کر خوش ہو گئے۔

اب پنجاب حکومت کی دوبارہ بحالی کے بعد تبادلوں کا سلسلہ دوبارہ چل پڑے گا اور سرکاری ملازم پھر سے اپنے بوریا بستر باندھنا شروع کر دیں گے۔ ایک وقت تھا جب حکومتیں بدلا کرتی تھیں مگر نوکر شاہی وہیں کی وہیں رہا کرتی تھی یعنی حکومت بدلنے پر ڈی آئی جی، ایس پی اور سیکریٹری نہیں بدلا کرتے تھے۔ اب حکومت بدلنے کیساتھ ہی نوکر شاہی بھی ایسے ہی بدل دی جاتی ہے جیسے انتخابات کے بعد اسمبلی بدلتی ہے۔ یعنی اب نوکر شاہی کو بھی سیاست میں براہ راست ملوث کر لیا گیا ہے اور اسے بھی اپنی سیاسی وفاداریاں نبھانا پڑ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے سولہ مارچ کے لانگ مارچ کے دوران کئی سرکاری ملازمین نے استعفے دے دیے۔ اب ان کی قسمت چمکے گی اور ان کی سیاسی وفاداریوں کا انعام انہیں دیا جائے گا۔

کاش ہمارے حکمران پنجاب حکومت کے تماشے کی طرح کے اقدامات سے پہلے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر سوچا کریں اور عوام کی فلاح کو مقدم رکھا کریں۔ مگر اب تو ایسے لگتا ہے جیسے حکمران عوام کی خدمت نہیں بلکہ ذاتی کاروبار چلا رہے ہیں اور دھڑا دھڑ منافع کما رہے ہیں۔ عوام ان کے دیہاڑی دار مزدور ہیں جن کے خون پسینے سے وہ دولت کما رہے ہیں اور اس کے بدلے انہیں صرف روزی روٹی کے چکر میں پھنسایا ہوا ہے۔