کبھی کبھی اخباروں کی خبروں میں ایسی ایسی عبارتی غلطیاں ہوتی ہیں کہ آدمی کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ آج جنگ کی تازہ خبروں میں سؤر کو مارنے کی بجائے اسے ذبح کرنے کی اصطلاح پڑھ کر ہم تو ہنستے ہی رہ گئے۔ اخبارنویس نے خبر کی سرخی تو ٹھیک لگائی مگر متن میں لکھتا ہے

مصر نے سوائن فلو کے خطرے کے پیش نظر ملک میں موجود ڈھائی لاکھ سؤروں کو ذبح کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مصری حکام کے مطابق اسکندریہ میں اب تک ایک سو سؤروں کو ذبح کر دیا گیا ہے جبکہ مختلف فارموں سے سؤروں کو قاہرہ لانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے جہاں ان کو حکومت کے مذبح خانے میں ختم کیا جائے گا۔

جہاں تک ہمارا خیال ہے ابھی تک ذبح کا لفظ خالصتأ حلال جانوروں کیلیے استعمال ہوتا آیا ہے۔ ویسے ادبی طور پر ذبح کے لفظ کو گلا کاٹ کر قتل کرنے کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر حرام جانور کو مارنے کیلیے ذبح کا لفظ کبھی سننے میں نہیں آیا۔ مصر میں ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایسے حرام جانور کا کاروبار ہوتا ہے جن کو ہاتھ لگانا بھی قبیح خیال کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں سب سے بڑی گالی بھی اسی جانور کے نام سے منصوب ہے۔ مسلمان جتنا بھی تھرڈ کلاس مذہبی ہو وہ سؤر کا گوشت نہیں کھائے گا ہاں شراب پینے میں دیر نہیں کرے گا۔ شاید اس کی وجہ سؤر کی شکل و شباہت ہوتی ہے جسے دیکھ کر ہی ایک مسلمان کو متلی آنے لگتی ہے مگر شراب جب خوبصورت بوتل سے انڈیل کر خوبصورت گلاس میں پیش کی جاتی ہے اور پینے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت کی سیر بھی کرائے گی تو وہ مسلمانی ایک طرف رکھ کر اسے غٹا غٹ پی جاتا ہے اور اس کی توجیح یہ بیان کرتا ہے۔

شیخ صاحب آپ بھی پئیں خلد والے تمام پیتے ہیں

نیتوں میں خلل نہیں بیشک چیز حرام پیتے ہیں

پاکستان میں تو اب تک سؤر مارے ہی جاتے رہے ہیں لیکن روشن خیالوں سے یہ بھی بعید نہیں کہ انہوں نے بھی سؤروں کے فارم بنا لیے ہوں۔ اب تک تو پاکستان میں سؤر فصلیں اجاڑنے کا کام ہی کرتے رہے ہیں لیکن اب ہو سکتا ہے ان سے مال بنانے کی بھی کسی بزنس مین نے ترکیب نکال لی ہو۔