ابھی سور پر پہلی پوسٹ شائع کیے دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ یاسر عمران نے سور پر حکیم خالد صاحب کا مضمون چھاپ دیا۔ ہم نے سوال کیا جس کا حکیم صاحب نے برا منایا۔ ہم نے بعد میں صفائی پیش کی جس کے جواب میں اجمل صاحب، خاور صاحب اور یاسر صاحب نے لکھا۔ یہ ساری بحث آپ یاسر صاحب کے بلاگ پر پڑھ سکتے ہیں۔

یورپ میں جو خوراک سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے وہ ہے سور کا گوشت۔ اس کی وجہ کاروباری بھی ہو سکتی ہے اور ذائقہ بھی۔ کاروباری اس طرح کہ شاید سور کی افزائش آسان ہوتی ہو گی یا پھر اس میں منافع زیادہ ہوتا ہو گا۔ کیونکہ دوسرے بھی بہت سارے جانور ہیں یعنی گائے، بکرا، مرغی وغیرہ مگر سور ہی کیوں۔ ہو سکتا ہے سور کا گوشت ذائقے دار زیادہ ہوتا ہو۔

آپ یورپ کے کسی بھی ریسٹورنٹ چلے جائیں تمام کھانوں میں سور کی آمیزش کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو ویجیٹیرین ہوں گے یا چکن آرڈر کریں گے۔ ہاں کے ایف سی پر چکن زیادہ بکتا ہے۔ اسی طرح آپ کو مصنوعی اشیاء میں بھی سور کے گوشت یا چربی کی آمیزش ملے گی۔ یہی وجہ ہے ہم مسلمانوں کو کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے اس کی اجزائے ترکیبی پڑھنا پڑتی ہیں کہ کہیں ان میں سور کے اجزا تو شامل نہیں۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سور اسلام میں حرام ہے۔ یہ بھی سن رکھا ہے کہ سور نجاست کھاتا ہے اور اجتماعی بدفعلی کرتا ہےمگر یہ کہاں تک سچ ہے کوئی جانوروں کا ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔

حکیم خالد صاحب نے اپنے مضمون میں سور کے گوشت کی بہت ساری برائیاں بھی گنوائی ہیں اور ان کا مضمون پڑھ کر ہی ہمارے ذہن میں سوال ابھرا کہ برائیوں سے بھرپور سور کا گوشت کھانے والا معاشرہ یعنی یورپ ابھی تک زندہ کیوں ہے؟ جس معاشرے کا اوڑھنا بچھونا ہی سور کا گوشت ہے اور جس کا ڈنر سور کے گوشت کے بغیر ادھورا ہوتا ہے وہ ابھی تک مر کھپ کیوں نہیں گیا۔ سارا یورپ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تندرست ہے۔ اس کے عوام اپنی طاقت کا مظاہرہ ہر میدان میں کر رہے ہیں۔ کھیلوں میں یہ آگے ہیں، معاشی ترقی میں وہ نمبر ون ہیں، ایجادات میں ان کو برتری حاصل ہے، ٹیکنالوجی میں انہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ آخر کیوں؟

دراصل ہم مسلمانوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ جو چیز اسلام میں حرام یا ممنوع ہے اس کو سچ ثابت کرنے کیلیے ہم اندھا دھند دلائل دینا شروع کر دیتے ہیں اور حتی کہ زمینی حقائق سے بھی پردہ پوشی کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں رہ رہے ہوتے تو سور کے گوشت کی برائیوں پر یقین کر لیتے لیکن جب سے ہم نے یورپ کے لوگوں کو سور کھا کھا کر سپر پاور بنتے دیکھا ہے تو ہم سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلام میں جو چیز حرام ہے یا ممنوع ہے اس پر کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں بس حرام ہے تو حرام ہے۔ بھئی جب ایک چیز سے منع کیا گیا ہے تو بس لیکن اس حرام چیز کو زبردستی ایسے دلائل سے سچ ثابت کرنے کی کوشش کرنا جس کو حقائق جھٹلاتے ہوں وہ عام مسلمان کیلیے پریشانی کا باعث ہی بنے گا۔