پچھلے سال وزیراعظم کے امریکہ کے دورے کے موقع پر ہم نے اسی موضوع پر ایک تحریر لکھی تھی۔ ایک سال میں حالات تو بدلے نہیں اس لیے اس پوسٹ کی افادیت ابھی تک برقرار ہے۔ اگر صدر زرداری امریکی صدر سے ملاقات سے قبل اس پوسٹ کا مطالعہ کر سکیں تو پاکستان کیلیے بہتر ہو گا [خواہش جو کب پوری ہو گی]۔

اگر مانگنا ہی ہے تو پھر اپنی اوقات سے بڑھ کر مانگیے اور اوقات سے کم  اگر ملے تو اسے دھتکار دیجیے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمارے ایک عزیز نے کام نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ان کا کوئی رشتہ دار ایسا نہیں ہو گا جس سے انہوں نے ادھار نہ لے رکھا ہو۔ ایک دفعہ وہ ہماری بہن سے ادھار مانگنے آئے۔ کہنے لگے انہیں دس ہزار روپے چاہئیں۔ ہماری بہن کے پاس اس وقت پانچ ہزار ہی تھے انہوں نے جب دینے کی کوشش کی تو کہنے لگے تم نے کیا مجھے فقیر سمجھ رکھا ہے جو پانچ ہزار دے رہی ہو اور یقین کریں انہوں نے پانچ ہزار لوٹا دیے اور خالی ہاتھ واپس چلے گئے۔ یعنی مانگنا ہی ہے تو پھر جی بھر کر مانگو یہ چھوٹی موٹی چیزیں کیا مانگنا۔

چلیں اس پوسٹ کی چیدہ چیدہ باتیں ہم یہاں دہرا دیتے ہیں۔

خدارا امریکہ سے کہیں کہ وہ پاکستان کو ایٹمی بجلی گھر لگانے میں مدد کرے تا کہ بجلی کا بحران ختم ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ ترقی ہو گی تو دہشت گردی ختم ہو گی۔

خدارا ملک سے کرپشن ختم کرنے کیلیے صدر اوبارمہ سے مدد مانگیے۔ لوگوں کے کام بغیر رشوت کے ہوں گے تو وہ طالبان کو کبھی خوش آمدید نہیں کہیں گے۔

خدارا پاکستان میں انصاف کا سسٹم بہتر بنانے کیلیے مدد مانگیے تا کہ اگر انصاف ہو گا تو پھر طالبان کے نظام عدل کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

خدارا ڈرون حملے بند کروایے۔ اگر یہ حملے نہیں ہوں گے تو ہمیں اپنی عوام کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا۔

خدارا ملکی انتظام چلانے کیلیے نہیں بلکہ صنعتیں لگانے کیلیے رقم مانگیے تا کہ لوگوں کو روزگار ملے اور وہ انتہاپسندی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیں۔

مگر زرداری صاحب سے اس طرح کی بھیک مانگنے کی توقع بہت کم ہے کیونکہ وہ اور قسم کے بھکاری ہیں۔ وہ مانگیں گے تو یہ مانگیں گے

خدارا مجھے حکومت میں رہنے دیں۔ حکومت کی خاطر میں سوات میں بھی کاروائی کرنے کو تیار ہوں۔

خدارا مجھے حکومت میں رہنے دیں۔ اس کی خاطر میں بھارت کی برتری ماننے کو بھی تیار ہوں۔

حضور میرے جیسا غلام آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ جس کا کام ہی ہی یس سر کہنا ہے۔