چاہے پاکستان ہو، امريکہ ہو يا دنيا کا کوئي بھي ملک آپ کو ضمير کے قيدي ہر جگہ مليں گے۔ چند ايسے ملکوں کے نام ہم بھي گنوا سکتے ہيں جہاں ضمير قيدي قيد ہيں۔ اسرائيل نے فلسطينيوں کو اسلۓ قيد کيا ہوا ہے کہ وہ اپنا حقِ آزادي مانگتے ہيں۔ مصر ميں اخوان المسلمين کے ارکان قيد ہيں، نائيجيريا ميں ايک سياسي پارٹي نے اسلام کے نام پر انتخابات جيتے تو وہاں مارشل لاء لگا ديا گيا اور سياسي پارٹي کي ليڈرشپ کو قيد کرديا گيا۔ اسي طرح ترکي، صوماليہ، اردن، سري لنکا، نيپال اور ليبيا کا حا ل ہے۔

پاکستان ميں بھي ہر حکومت نے سياسي لوگوں کو ضمير کے قيدي بنايا اور دوسرے لوگوں کيلۓ عبرت کا نشان بناۓ رکھا جس طرح امريکہ نے گوينٹاناموبے کي جيل بنا کر دوسرے لوگوں کيلۓ عبرت کا نشان بنايا ہوا ہے وگرنہ پانچ سو انسانوں کو بناں مقدمہ چلاۓ پانچ سال تک قيدي بناۓ رکھنے کا کوئي تک نہيں بنتا۔ آج تو اقوامِ متحدہ کے آزاد دس رکني پينل نے بھي امريکہ سے کہا ہے کہ وہ اس جيل کے ساتھ ساتھ دنيا ميں قائم ساري خفيہ جيليں بند کردے۔

اسي طرح بھٹو نے ظہور الٰہي کو قيد کيا، ضياالحق نے پيپلز پارٹي کے ليڈروں اور کارکنوں کو قيد کيا اور کوڑے مارے، نواز شريف نے ذرداري کو اور بے نظير نے نواز شريف کے والد اور شيخ رشيد کو جيل بھيجا۔ اسي طرح موجودہ حکومت نے يوسف رضا گيلاني اور جاويد ہاشمي کو قيد کيا ہوا ہے۔ ان دونوں ليڈروں کا قصور صرف اتنا ہے کہ يہ بڑبولے ہيں اور اسمبلي ميں حکومت کيلۓ مسائل پيدا کرسکتے  تھے جس طرح ايک وقت ميں شير افگن نے نواز شريف حکومت کو اور شيخ رشيد نے بے نظير حکومت کو اسمبلي ميں ناکوں چنے چباۓ رکھےاسي طرح يہ ساستدان بھي حکومت کا جينا دو بھر کرسکتے تھے۔ موجودہ حکومت نے بھي ان دو صاحبان کو قيد ميں ڈال کر دوسرے لوگوں کيلۓ عبرت کا نشان بنانے کي کوشش کي اور وہ اس کوشش ميں کاميباب بھي ہوئي کيونکہ اسي ڈراوے پر حکومت نے پيپلزپارٹي کے پرانے ليڈروں کو توڑا اور حکومت بنا لي۔ يہ تو ڈاکٹر شيير افگن اور شيخ رشيد کي عقلمندي يا بزدلي سمجھۓ کہ انہوں نے فوج سے ٹکر لينے اور اپنے ضمير کي آواز پر لبيک کہنے کي بجاۓ اپني اپني پارٹيوں سے غداري کي اور حکومت ميں شامل ہوگۓ۔ اسي طرح پيپلز پارٹي پيٹرياٹ کے لوگوں کو بھي معلوم تھا کہ اگر انہوں نے فوج کي بات نہ ماني تو ساري عمر کرپشن کے چکر ميں جيل ميں سڑتے رہيں گے۔

ہمارے خيال ميں پاکستان ميں اس وقت چند گنے چنے سياسي ليڈر ہوں گے جنہيں ملک کي بقا کي فکر ہوگي وگرنہ اکثريت کو ملک کي بجاۓ اپنے پيٹ کي فکر ہے۔ ان ڈرپوک يا عقلمند ليڈروں نے کئ دفعہ ايسے اقدامات بھي اٹھاۓ ہيں جن کي وجہ سے ہم انہيں محبِ وطن يا مخلص کارکن کہ سکتے ہيں مگر ان اقدامات کے پيچھے بھي ان کي مجبورياں ہوتي تھيں وگرنہ اگر حالات ان کا ساتھ ديتے تو وہ بھي غداري ميں نمبر ون ہوتے۔

ملک پر جان دينے کي صلاحيت نيلسن منڈيلا کي طرح ہر ايک ميں نہيں ہوتي اور اس کيلۓ جان و مال دونوں کي قرباني درکار ہوتي ہے جو اس وقت ہماري موجودہ ليڈرشپ ميں نہيں پائي جاتي۔ خدا ان ليڈروں کے دل ميں ملک کي محبت پيدا کرے اور انہيں اپنے عوام کي دل سے خدمت کرنے کي توفيق عطا فرماۓ۔