کبھی کبھی آدمی ترنگ میں آکر ایسی بات کہ جاتا ہے جس کی پاسداری وہ نہیں کر سکتا اور اسی موقعے پر کہتے ہیں کہ کبھی بڑا بول نہیں بولنا چاہیے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے واقعات دیکھے ہیں جب کسی نے بڑا بول بولا اور پھر اسے اس کا مزہ چکھا۔ ہماری ایک عزیزہ جب غریب تھیں تو ان کی بہن نے ان کی بیٹیوں کا نہ صرف رشتہ لینے سے انکار کیا بلکہ ان میں سو سو عیب نکالے۔ بعد میں ایسا وقت آیا کہ وہ لڑکیوں کا رشتہ مانگتی تھی اور بہن نے سنی ان سنی کر دی تھی۔

ہمارے ایک عزیز کو اپنی دولت پر بڑا گھمنڈ تھا اور اپنے والدین پر خرچ کی گئی رقم کو بھی خیرات کے زمرے میں لیتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہی والدین کے آگے انہیں ہاتھ پھیلانے پڑے۔

اس فوٹو کو دیکھیں، ایک وقت تھا شیخ رشید کا میاں نواز شریف سے بڑا دشمن کوئی نہیں تھا اور اب وہ انہی کیساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ ایک دن شیخ رشید nawazrasheedاپنی عوامی مسلم لیگ کو مسلم لیگ ن میں زم کر لیں۔

سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں جتنا بڑا دھوکہ شیخ رشید اور چوہدریوں نے میاں برادران کو دیا ہے اس کا ریکارڈ شاید ہی ٹوٹ سکے۔ اسی طرح جتنی دفعہ ایم کیو ایم نے اپنی وفاداریاں بدلی ہیں اس کا ریکارڈ توڑنے کیلیے بھی عرصہ درکار ہو گا۔ ایم کیو ایم کبھی مسلم لیگ ن کیساتھ، کبھی مسلم لیگ ق کیساتھ اور کبھی پیپلز پارٹی کیساتھ۔ رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے وقت میں ایم کیو ایم کی خوب ٹھکائی کی مگر وہ پھر انہی کی جھولی میں آ گری۔

جس طرح چوہدریوں نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کیساتھ آخری وقت تک وفاداری نبھائی یہ بھی سیاسی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے وگرنہ تو بھٹو کی طرح ڈوبتی کشتی سے سبھی لوگ چھلانگیں لگا دیتے ہیں۔ یہ وہی بھٹو ہے جس نے کہا تھا کہ میری کرسی مضبوط ہے اور کچھ عرصے بعد کرسی کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور وہ سولی پر چڑھ گیا۔

سیاسی تاریخ میں ڈاکٹر شیرافگن نے بھی کئی دفعہ تھوک کر چاٹا ہے وہ اسمبلی میں جس جس کی خبر لیتے رہے بعد میں اسی کے ہاتھوں بکتے رہے۔ یہ ان کی زبان درازی یا چرب بیانی ہی تھی جس نے انہیں ہر حکومت سے وزارت دلوائی۔