کبھي بھي نہيں۔

 کيونکہ حکومت کي نيت ہي ٹھيک نہيں ہے۔ جب حکومت ميں شامل وزراء خود ذخيرہ اندوزي اور لوٹ مار ميں شامل ہوں تو چيني کيسے سستي ہوگي۔ اس پر طرہ يہ کہ ہمارے دور کا طاقتور ترين فوجي حکمران بھي ان قوم کے مجرموں کے آگے بےبس ہے۔

 مزہ تو تب تھا کہ ہمارے وزيرِ اعظم اپنے وعدے کے مطابق اپني ٹيم کا احتساب کرتے مگر وہ نہيں کرسکے کيونکہ بقول شيخ رشيد کے ملک ميں کئ قسم کے مافياز ہيں اور ان کو کنٹرول کرنا آسان کام نہيں ہے۔ ليکن ہم يہ بات بھول جاتے ہيں کہ عوام کي بھي ايک طاقت ہے مگر ہم عوام کي طاقت براہِ راست استعمال کرنے کي بجاۓ وڈيروں اور جاگيرداروں کے ذريعے کنٹرول کرتے ہيں اور اسي ليۓ مہنگائي بڑھانے والے دندناتے پھر رہے ہيں اور ہم طاقت کا منبع ہونے کے باوجود ان کے آگے بےبس ہيں۔ اگر ہماري طاقت کا يہ حال ہے تو پھر چاہے ہم وزيرِ اعظم ہوں يا صدر ہم ايک بےبس آدمي ہيں جن کا کام صرف اور صرف غيرملکي مفادات کا دفاع ہے۔ عوام مرتےہيں تو مريں ہمارے آقاؤں کي رعايا کو تکليف نہيں ہوني چاہيۓ۔ ہم اپنے ملک کا نقصان کرليں گے مگر اپني کرسي کي مضبوطي کے ذمہ داروں کو ضرور نوازيں گے۔

جس طرح پہلے برطانيہ نے ايسٹ انڈيا کمپني کے ذريعے ہم ميں سے ہي غداروں کو خريد کر سو سال سے زيادہ حکومت کي اسي طرح اب بھي ہمارے غيرملکي آقا ہميں ميں سے چند غداروں کو ہمارے حکمران بنا کر ہم پر حکومت کررہے ہیں اور اس دفعہ ان کي حکومت سو سال سے کہيں زيادہ کي ہوگي کيونکہ اب غداروں کي تعداد زيادہ ہوچکي ہے اور عوام بھي بے حس ہوچکے ہيں۔

اگر لوگ ہي مہنگائي کے خلاف آواز نہ اٹھائيں تو حکومت کو کيا باولے کتے نے کاٹا ہے کہ وہ مہنگائي کم کرنے پر توجہ دے اور اپني کمائي پر خود ہي کلہاڑي چلا دے۔ جب حکومتي وزير ہي چيني، سيمنٹ، آٹے اور سٹيل کے مالک ہوں گے تو وہ خاک ان چيزوں کي قيمتيں کم کرنے کي کوشش کريں گے۔

ہم کسي کو اپني تباہي کا موردِ الزام نہيں ٹھراتے بلکہ جب اپنے گريبان ميں جھانکتے ہيں تو خود ہي قصور وار لگتے ہيں۔ جب ہم ہي اپنے احتصال پر آواز نہيں اٹھائيں گے تو باہر سے کوئي خاک ہماري مدد کرنے آۓ گا۔

اسلۓ ہمارا يہي خيال ہے کہ حکومت مہنگائي پر قابو نہيں پاۓ گي اور اگر بجٹ ميں اس نے کچھ رعايات ديں بھي تو وہ صرف انتخابات جيتنے کا بہانہ ہوگا اور انتخابات کے بعد دي ہوئي رعائيتيں بمع سود واپس لے لي جائيں گي۔

عجيب سا لگتا ہے جب ہمارے صدر صاحب اپنے ہي ماتحتوں سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ چيزوں کي قيمتيوں پر نظر رکھيں۔ کيا وہ يہ خود آرڈر نہيں دے سکتے؟ کيا وہ اس طرح کا آرڈينينس پاس نہيں کرسکتے؟ کيا وہ آرمي سے لوگ چن کر ان کے ذمے چوروں اور ذخيرہ اندوزوں کے محاسبے پر معمور نہيں کرسکتے؟ يا تو لگتا ہے صدر اب بے بس ہوچکے ہيں اور يہ ان کي زندگي کے آخري دن ہيں يا پھر وہ بھي ان چوروں اور لٹيروں کے ساتھ مل چکے ہيں اور قوم کا خون چوسنے ميں برابر کے شريک ہيں۔ اب وہ کيا ہيں يہ انتخابات سے پہلے ہي واضح ہوجاۓ گا اور پھر يہ عوام پر منحصر ہوگا کہ وہ کس کو منتخب کرکے اپني قسمت کي ڈور اس کے ہاتھ ميں تھماتے ہيں۔