حيران اس بات پر نہيں ہونا چاہيۓ جب دس ميں سے نو لکھاري فوجي حکومت کے خلاف لکھ رہے ہيں اور فوج کے حکومت ميں ملوٓث ہونے کے نقصانات کے اندازے لگارہے ہيں۔ کالم نگاروں کي اکثريت فوجي حکومت کي کارکردگي سے مايوس ہے اور اس کے پاکستان کي ترقي پر برے اثرات کا رونا رو رہی ہے۔ بلکہ حیران اس بات پر ہونا چاہیۓ کہ ابھی بھی پاکستان میں ایسے لوگ ہیں جو فوجی حکومت کو جائز قرار دے رہے ہیں اور فوج کو ہی پاکستان کا نجات دہندہ کہتے ہیں۔ 

مگر حکومت ہے کہ اتني تنقيد کے باوجود ٹس سے مس نہيں ہورہي اور اپني من ماني کر رہي ہے۔ اس کي سب سے بڑي وجہ يہي ہے کہ حکومت جانتي ہے کہ موجودہ دور میں يہ لکھنے والے بےاثر ہيں اور ان کي لکھی بات پر کوئي کان نہيں دھرے گا۔ جس دن حکومت کو ذرا سا بھي شک پڑا کہ آزادئ صحافت اس کيلۓ خطرہ بن رہي ہے اسي دن ان سب لکھنے والوں کي زبانيں بند کردے گي۔ 

حکومت کي تعريف اگر کي جاتي ہے تو صرف ايک بات پر کہ صدر مشرف نے ٩١١ کے بعد افغانستان کي پاليسي پر يو ٹرن لے کر پاکستان کو بچا ليا۔ يقين مانيں اس وقت کوئي بھي حکمران ہوتا وہ اپنا اقتدار بچانے کيلۓ يہي کرتا کيونکہ پاني ميں رہ کر مگر مچھ سے کوئي بھي بير نہيں لے سکتا تھا۔ اور دوسرے ہم پاکستان کي بجاۓ سب سے پہلے اپنا مفاد سوچتے ہيں۔ ہماري سابقہ حکومتوں نے بھي ہميشہ اپنے مفاد کو ترجيح دي ہے اور اقتدار حاصل کيا ہے چاہے اسکيلۓ ملک کے دو ٹکڑے کرنے پڑ جائيں۔

ابھي تک چار فوجي حکومتوں کے ادوار گزرے ہيں اور ہر حکومت نے ملک کو ايک انوکھا تحفہ ہي ديا ہے۔ جنرل ايوب نے محترمہ فاطمہ جناح کي عزت خاک ميں ملائي اور ملک کو ١٩٦٥ کي جنگ ميں پہلے جنگ میں جھونکا اور پھر تاشقند میں جنگ ہار دي۔ يہ ايوب خان ہي تھے جنہوں ملک کو دو ٹکڑے کرنے کي بنيا دکھي۔

جنرل يحيٰ نے اپني شراب نوشي ميں مدہوش رہے اور عياشيوں ميں پڑے رہے۔ ان کے سب سے چھوٹے فوجي اقتدار نے ملک کے دو ٹکڑے کريۓ۔

جنرل ضياء الحق نے ملک ميں کلاشنکوف کلچر متعارف کرايا۔ ايک لساني جماعت ايم کيو ايم کي بنياد رکھي اور اسلام کو ناکام نظام ثابت کرنے کيلۓ اس کو خوب استعمال کيا۔

جنرل مشرف نے غيروں کي چاکري کے سارے ريکارڈ توڑ ديۓ اور ثابت کرديا کہ پاکستان اب ايک آزاد ملک نہيں ہے اور اس کا حکمران صرف غيروں کے مفادات کا دفاع کيا کرے گا۔ جنرل مشرف کي حکومت معاشي ترقي کے ثمرات سميٹنے کي ناکام کوشش کردہي ہے کيونکہ سب کو معلوم ہے کہ اس ترقي کے پيچھے حکومت کي کوششوں کي بجاۓ بين الاقوامي حالات کا زيادہ ہاتھ ہے۔

يہ بات اب حکومت کوياد رکھني چاہيۓ کہ آزاد ميڈيا ايک دن ضرور ملک کے عوام کا شعور بيدار کردے گا اور اس دن عوام ان لوگوں کو اپنے نمايئندے چنے گي جو ملک کے وفادار ہوں گے اور ملک کي عزت کا سودا نہيں کريں گے۔