ابھی تک تو ہم یہی سنتے آئے تھے کہ ہر داڑھی والے کو طالبان شمار کیا جانے لگا ہے مگر یہ نہیں سنا تھا کہ کچھ اداروں میں داڑھی رکھنا منع فرمایا گیا ہے۔ اس ویک اینڈ پر ہمارے کزن ہمیں ملنے آئے ہم نے ان کے بھانجے کے بارے میں دریافت کیا جو ایئرفورس کے کالج آف ایروناٹیکل انجنیئرنگ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ دراصل اس نے پی ایے ایف کالج سرگودھا سے فارغ ہونے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ ایروناٹیکل انجنیئر بنے گا۔
وہ بتانے لگے کہ عبداللہ آج کل انجنیئرنگ میں داخلے کیلیے مختلف یونیورسٹیوں کے داخلہ ٹیسٹ دینے میں مصروف ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اس کے ایروناٹیکل انجنیئرنگ کا کیا بنا تو وہ کہنے لگے کہ اسے وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ دو سمیسٹرز کے بعد عبداللہ جو پانچ وقت کا نمازی پہلے ہی تھا گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آیا اور مسجد کے امام کی تربیت نے اس پر ایسا اثر کیا کہ اس نے داڑھی رکھ لی۔ جب وہ داڑھی کیساتھ واپس کالج پہنچا تو انتظامیہ نے اسے داڑھی کیساتھ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کیساتھ چار دوسرے طلبا کو حکم ملا کہ یا داڑھی منڈوا دو یا گھر واپس لوٹ جاؤ۔ دو نے ایروناٹیکل کی تعلیم کو ترجیح دی اور داڑھی منڈوا دی۔ باقی تین دھن کے پکے نکلے اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ہمارے پوچھنے پر کزن نے بتایا کہ یہ قانون مشرف دور میں پاس ہوا تھا یعنی فوج کے کالجوں میں داڑھی رکھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
تب سے ہم سوچ رہے ہیں
کیا ایروناٹیکل انجنیئرنگ کیلیے داڑھی رکاوٹ بنتی ہے؟
فوج کے کالجوں میں داڑھی نہ رکھنے کے پیچھے کونسی منطق پوشیدہ ہے؟
آج سنت نبوی یعنی داڑھی کی ممانعت ہے تو کل اللہ کے حکم یعنی نماز کی ممانعت بھی کر دی جائے گی تب فوج کس مشن کے تحت لڑے گی اور نعرہ تکبیر کا کیا بنے گا؟
دہشت گردوں کیخلاف موجودہ جنگ میں جو داڑھیوں والے آفیسر ٹی وی پر نظر آتے ہیں کیا انہوں نے بھیس بدلا ہوا ہے؟
جنرل ضِیاء کے دور کے بعد فوج سے اسلامی ذہن رکھنے والے آفیسروں کو چن چن کر نکالا گیا۔ کیا یہ عمل اسی تسلسل کا نتیجہ ہے؟
اگر سکھ کو داڑھی کیساتھ قبول کیا جا سکتا ہے تو پھر مسلمانوں کو کیوں نہیں؟