خدا خیر کرے چیف جسٹس صاحب نے پھر سے حکومت کے اختیارات میں مداخلت شروع کر دی ہے۔ مشرف دور میں ان کے ہٹائے جانے کی ایک ہی وجہ تھی کہ چیف جسٹس چوہدری افتخار نے انتظامیہ کی دوڑیں لگا دی تھیں اور فوجی افسروں تک کو عدالت میں جھاڑنا شروع کر دیا تھا۔ ابھی تک چیف صاحب نے ان معاملات کو نہیں چھیڑا جن میں ہمارے بدیسی آقا کا مفاد ہے یعنی غائب پاکستانیوں کی برآمدگی اور عافیہ صدیقی کیس کی شنوائی مگر انہوں نے مقامی انتظامی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دی ہے۔ یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ حکومت نے پٹرول کی قیمتیں کم کر دی ہیں۔ اس سے قبل چیف صاحب بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر پابندی لگا چکے ہیں۔
جو کام صدر زرداری کے کرنے والے تھے وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کر رہے ہیں۔ کہیں پر کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے وگرنہ اگر اس طرح کے اقدامات صدر زرداری اٹھاتے تو ان کی بلے بلے ہو جاتی اور بدنامی کے پچھلے سارے داغ دھل جاتے۔ اس سے پہلے تو یہی ہوتا آیا ہے یعنی جونہی حکومت نے کوئی عوام کش قدم اٹھایا صدر نے وزیراعظم کی سرزنش کی اور اسے واپس لینے کا حکم دے دیا۔ لگتا ہے صدر صاحب کے اپنے ہی ان کی واہ واہ نہیں ہونے دے رہے۔
اب صورتحال کی اس تبدیلی کے پیچھے کونسی مصلحت چھپی ہوئی ہے وہ کچھ عرصے بعد ظاہر ہو گی۔ یا تو چیف صاحب کو دوبارہ معطل کرنے کے پلان بن رہے ہیں یا پھر صدر زرداری کو کھڈے لائن لگانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ زرداری صاحب اور ان کے مشیروں کے پاس اب بھی وقت ہے وہ فضول کاموں میں وقت برباد کرنے کی بجائے اپنی ساکھ بحال کرنے کی فکر کریں اور اپنے اختیارات کسی اور کو استعمال نہ کرنے دیں۔ اکثر باس کی چھٹی تبھی ہوتی ہے جب اس کے کام اس کا ماتحت آسانی سے کرنے لگتا ہے۔ پھر مالک سوچتا ہے جب سارے کام اسسٹنٹ میینجر کر رہا ہے تو پھر مینجر کی کیا ضرورت ہے۔
نوٹ: اوپر والی پوسٹ ہم ابھی شائع کرنے کی کوشش میں تھے کہ صدر زرداری نے ایک آرڈینینس جاری کر کے پٹرول کی قیمتیں پرانی سطح پر بحال کر دیں۔ یعنی پٹرول پھر سے مہنگا کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معاملہ اسمبلی میں پیش کیا جاتا اور اسمبلی ارکان سے منظوری لی جاتی۔ مگر مشرف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زرداری صاحب نے اسمبلی کو پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا۔
یعنی زرداری صاحب کے مخالفین نے انہیں ایک اور جھٹکا دیا ہے۔ نیکیاں چیف جسٹس کے کھاتے میں لکھی جا رہی ہیں اور گناہ صدر زرداری صاحب کے کھاتے میں۔