جنرل مشرف نے بلدیاتی نظام متعارف کرایا اور اسمبلی ممبران کے متوازی سیاستدانوں کی ناظمین کی شکل میں نئی فوج بنا ڈالی۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرف کو ناظمین سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہی نہ ملا۔ اب جب بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں تو حکومت کو ڈر ہے کہ انتخابات میں حکمران جماعتیں ہار جائیں گی اور اس کا علاج وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کی سفارش پر خراب حالات کا بہانہ بنا کر انتخابات ملتوی کر دینے میں ڈھونڈا ہے اور وہاں پر ایڈمنسٹریٹرز لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تا کہ نہ انتخابات ہوں اور نہ حکومتی جماعتیں ہاریں۔
لیکن حیرانی حزب اختلاف پر ہے جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے بعد بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرنے پر بھی کوئی شور نہیں مچا رہی بلکہ مسلم لیگ ن نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب حزب اختلاف چھوٹے چھوٹے ایشوز پر عوام کو سڑکوں پر لے آتی تھی، ایک یہ وقت ہے بڑے بڑے مواقع ملنے کے بعد بھی حزب اختلاف خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ مسلم لیگ ن پنجاب کی حکومت پر اکتفا کیے بیٹھی ہے اور اسے وفاق میں حکومت بنانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔
یہ نورا کشتی کی دوسری مثال ہے۔ اس سے قبل وفاقی بجٹ کی منظوری، پٹرول مہنگا کرنے والا آرڈینینس پر خاموش رہنے کی مثالیں نورا کشتی کا ثبوت تھیں۔ اب لگتا ہے کوئی پوشیدہ طاقت حزب اختلاف اور حکومت دونوں کو کنٹرول کیے بیٹھی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو پھر حالات سدھرتے نظر نہیں آتے کیونکہ جب سیاستدان مل کر بندر بانٹ شروع کر دیں گے تو پھر عوام کے ہاتھ میں ٹھینگا ہی آئے گا۔