جئے سندھ قومی محاذ یعنی جسقم کے بانی جی ایم سید تھے جنہوں نے سندھ کے حقوق کی جنگ لڑی۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ جئے سندھ کے جلسوں میں پاکستان کیخلاف تقریریں کی گئیں اور قائداعظم کیخلاف زہر اگلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جی ایم سید کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیل میں ہی گزرا۔ ابھی پچھلے دنوں جسقم کے جلسے میں پاکستان کیخلاف دوبارہ زہر اگلا گیا اور قومی پرچم کی توہین کی گئی۔
اس سے پہلے سوات کے مہاجرین کی سندھ میں داخلے کی جسقم کی طرف سے مخالفت کی گئی اور حکومت کو متاثرین سوات کو سندھ میں عارضی طور پر بسانے کا پروگرام ختم کرنا پڑا۔ اس سارے قضیے میں ایم کیو ایم نے بھی جئے سندھ کا ساتھ دیا۔ اب اللہ کے فضل سے سوات کی جنگ کے متاثرین پنجاب میں دو ماہ سے زیادہ مہمان رہ کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ سواتیوں کو سندھ میں پناہ دینے کی مخالفت کیوں گئی اور وہ بھی ان لوگوں کی طرف سے جو خود کہیں اور سے آ کر سندھ میں بسے ہوئے ہیں۔
جئے سندھ کے ایک ضلعی لیڈر کے قتل پر صوبے میں دو روزہ ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور آج پہلے روز جنگ کی خبر کے مطابق سندھ میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ ہمارے لیے تو یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے یعنی ایک قوم پرست تنظیم کے کہنے پر سارے سندھ میں ہڑتال رہی۔ ہمیں تو ڈر ہے جئے سندھ کا اس قدر بڑھتا اثرورسوخ ایک دن سندھ کی علیحدگی کا سبب نہ بن جائے۔ حیرانی حکومت پر بھی ہے کہ وہ اس قدر خطرناک صورتحال کو کوئی اہمیت نہیں دے رہی۔ اس پر طرہ یہ کہ ایم کیو ایم بھی جسقم کی حمایت میں سب سے آگے آ گے ہے۔
ہماری تحریر سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم جسقم کے کارکن کے قتل کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے اور نہ ہی اس کے قتل پر احتجاج کرنا غلط سمجھ رہے ہیں بلکہ اس ہڑتال کے نتیجے میں جسقم کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو نیک شگون قرار نہیں دے رہے۔ اس سے پہلے کہ جسقم ایک مکمل علیحدگی پسند تنظیم کا روپ دھار لے، ہماری حکومت کو کچھ کرنا ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسقم کے لیڈران سے مذاکرات کرے اور ان کے جائز مطالبات کو سنے۔ اس طرح سندھ کی اس علیحدگی پسند تنظیم کو قومی دھارے میں لا کر سندھ کی علیحدگی کے خطرے کو ختم کیا جا سکے گا۔