جیو نے پروگرام “عالیہ نے پاکستان چھوڑ دیا” شروع کیا ہے جو ہم نے وہاں تک دیکھا ہے جہاں عالیہ انگلینڈ پہنچ چکی ہے اور لوگوں سے مل رہی ہے مگر ابھی اس نے کسی گورے کیساتھ شادی نہیں کی۔ اس کی ریکارڈنگ یوٹیوب پر دستیاب ہے اور اب تک کی قسطیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جیو کو اس کے بعد دو اور پروگرام کرنے چاہئیں۔ ایک پروگرام کا نام ہونا چاہیے “عالیہ نے پاکستان نہیں چھوڑا” اور دوسرے کا نام ہونا چاہیے “عالیہ نے انگلینڈ چھوڑ دیا” تا کہ صحافتی غیرجانبداری کی لاج رکھتے ہوئے تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا جا سکے۔ اگر جیو میں اتنی جرات نہیں ہے تو کوئی دوسرا چینل یہ ہمت کر سکتا ہے۔
دوسرے پروگرام میں عالیہ کو ایسے لوگوں سے ملنا چاہیے جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور خراب حالات کے باوجود وہ پاکستان کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے عزیزوں رشتہ داروں بہن بھائیوں کی دوری برداشت نہیں کرسکتے اور پردیس کی زندگی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اپنے موجودہ پروگرام میں عالیہ نے ایسے لوگوں کا نقطہ نظر بیان کیا ہے مگر وہ مخالف نقطہ نظر کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ عالیہ ان لوگوں سے بھی ملی جو واپس پاکستان آ چکے ہیں مگر اس نے واپسی کی تفصیل پوچھنے کی بجائے بس ان کے منہ سے بدیس کی تعریفیں ہی اگلوائی ہیں۔
تیسرے پروگرام میں عالیہ کو انگلینڈ چھوڑنے کی وجوہات پر روشنی ڈالنی چاہیے اور دکھانا چاہیے کہ پاکستانیوں کی اکثریت انگلینڈ میں کس طرح کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس نے ایک امیر عورت اورتین کھلنڈرے نوجوان پاکستانیوں سے ملکر یہ سمجھ لیا ہے کہ سارے پاکستانی اسی طرح آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔
ویسے آپ لوگوں نے غور کیا ہو گا انگلینڈ روانگی سے قبل عالیہ جس طرح کی زندگی گزار رہی تھی اسے انگلینڈ جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لڑکوں سے دوستی، مردوں کے شانہ بشانہ دفتر میں کام، پنڈلیاں دکھانے کیلیے گھٹنوں تک اونچا پاجامہ، سلیولیس قمیض، ننگے سر، یہی کچھ تو انگلینڈ میں ہے۔ بلکہ عالیہ نے انگلینڈ میں پوری پینٹ اور فل بازو والی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔ ہاں پاکستان میں رہ کر گورے سے شادی کرنا تھوڑا مشکل ہو جاتا مگر آج کل کے حالات میں یہ بھی ناممکن نہیں رہا۔
جیو کو چاہیے تھا کہ عالیہ کو ایک عام سی لڑکی دکھاتا جو ایک متوسط گھرانے میں رہ رہی ہوتی تا کہ عالیہ نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے وہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے۔ عالیہ جس سوسائٹی میں زندگی گزار رہی تھی وہ ایسے حالات سے دوچار نہیں ہے جن کا ذکر اس نے کیا ہے۔ عالیہ کو بھلا لوگ کیوں گھوریں گے جب وہ پیدل یا ویگن کی بجائے گاڑی میں سفر کرے گی۔ عالیہ جیسی عورتیں مادر پدر آزاد ہوتی ہیں انہیں مردوں کا کیا ڈر بلکہ وہ تو مخلوط سوسائٹی میں پرتعیش زندگی گزار رہی ہیں۔