پتہ نہیں سکواش کے سابقہ سکواش چيمپئن جان شير خان کو کيا سوجھي کہ انہوں نے ايک عورت کو اس کے گھر جاکر ذليل کيا اور خود کو مصيبت ميں ڈال ليا۔ چليں مان ليا کہ رقم کے لين دين کا معاملہ ہے مگر کسي کے گھر بدمعاشوں کيساتھ جاکرجو طريقہ جان شير خان نے اپنايا وہ تو بدمعاشوں کا کام ہے شريفوں کا نہيں۔ خان صاحب اگر چاہتے تو کورٹ ميں جاتے اور عورت کے خلاف کيس درج کراديتے يا پھر تھانے ميں اس کے خلاف رپٹ کراتے اور باقي کام تھانيدار پر چھوڑ ديتے۔ مگر لگتا ہے خان صاحب کو بھي عام پبلک کي طرح حکومت کے ان محکموں پر بھروسہ نہیں تھا جو قانون کو اپنے ہاتھ ميں لے بيٹھے اور اپنے لۓ مصيبت کھڑي کر لي۔ خان صاحب ابريمانڈ پر مزيد دس دن جيل ميں رہيں گے تو دماغ خود بخود درست ہو جاۓ گا۔

ہميں تو يہ بھي حيراني ہے کہ اتني امارت کے باوجود خان صاحب اس اوچھي حرکت پر کيوں اتر آۓ۔ وہ اگر چاہتے تو تھانے ميں اپنا اثرورسوخ لڑا کر يا پھر حکموت کے کسي کارندے سے کام لے سکتے تھے۔ لگتا ہے يا تو خان صاحب نے بدمعاشي کي لائن اختيار کرلي ہے يا پھر وہي بات کہ حکومت پر سے اعتبار اٹھ گيا ہے يا پھر مدِ مقابل کو بہت ہي کمزور سمجھا ہے جو انہوں دو چار بدمعاشوں کي مدد سے عورت ذات سے ٹکر لينے نکل پڑے اور اس کے بدلے جيل پہنچ گۓ۔ سننے ميں آيا ہے کہ اصل جھگڑا رقم کي لين دين کا ہے۔ جان شير خان رقم کے بدلے مکان پر قبضہ کرنے کے چکر میں تھے۔

ہم نے تصوير ميں ديکھا ہے کہ پوليس نے خان صاحب کر ہتھکڑي نہيں لگائي جبکہ ان کے ساتھيوں اور مخالفوں کو ہتھکڑيوں سميت عدالت میں پيش کيا۔ اب جبکہ خان صاحب کي ضمانت منسوخ کر کے جيل بھيج ہي ديا ہے تو پھر ہتھکڑي نہ لگانے سے اس بدنامي کا داغ نہيں مٹ جاۓ گا۔

ہمارا اب بھي خان صاحب کو يہي مشورہ ہے کہ بدمعاشي چھوڑيں اور قانوني طريقے سے اپنا حق حاصل کريں۔ اسي ميں ان کي عافيت ہے وگرنہ عورت ذات سے ٹکر لينا بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ جب حکومت مختاراں مائي کا اب تک کچھ نہيں بگاڑ سکي تو خان صاحب کيا بگاڑ ليں گے۔